• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو داخلے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جن شقوں کے تحت پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی پالیسی بنائی گئی ہے وہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل بنچ نے پرائیویٹ کالجوں میں داخلوں کے حوالے سے دائر 15 درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ایم ڈی سی کی پالیسی کالعدم قرار دی جاتی ہے، وفاقی حکومت 90 دن کے اندر اس کے انتخابات کرائے ۔ نیز اے اور او لیول اور بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے طالب علم بھی سیٹ ٹو انٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلے کے اہل ہیں۔ پنجاب میں ہرسال چھ ہزار نشستوں کے لئے تقریباً 65ہزار سے زائد طلبہ انٹری ٹیسٹ دیتے ہیں جبکہ 26سو کے قریب نجی میڈیکل کالجوں کی نشستیں ہیں،بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے آغاز سے ہی ایک مافیا سرگرم عمل ہے اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے اکٹھے کررہا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا تو لاہور ہائی کورٹ نے انٹری ٹیسٹ کے نتائج کالعدم قرار دے دیئے اور اب دوبارہ انٹری ٹیسٹ کے بعد داخلوں کا عمل مکمل ہونے کو ہے ، ادھر انٹری ٹیسٹ مافیا کا رول ختم ہوا تو بعض نجی میڈیکل کالجوں کا مافیا سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ میڈیکل کالج ایک طرف لاکھوں روپے داخلہ اور سالانہ فیس اکٹھی کر رہے ہیں جبکہ ایک ایک نشست کی بولی 25لاکھ سے 50لاکھ روپے تک لگ رہی ہے ۔ ڈونیشن کے نام پر فی طالب علم 50لاکھ روپے تک لئے جا رہے ہیں ،باوجود اس کے کہ وہ ایک نام نہاد میرٹ پر بھی ہیں اور والدین بھی ان نجی میڈیکل کالجوں کے ساتھ مل کر انسانی زندگیوں کے قتل کی سوداگری کررہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر دو تین ڈاکٹرز کوجانتا ہوں جنہوںنے اپنے بچوں کو نجی میڈیکل کالجوں میں داخلہ دلوانے کے لئے لاکھوں روپے ڈونیشن کے نام پر دیئے ہیں۔ دیدہ دلیری یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے ۔ کیونکہ جتنے بھی نجی میڈیکل کالج ہیں ان میں معیار کی سہولتیں موجود نہیں صرف کروڑوں روپے رشوت کے عوض انہیں رجسٹریشن دی گئی ۔ آج بھی ریکارڈ چیک کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مطلوبہ معیار کے ایک ہی پروفیسر کے نام کئی کئی کالجوں میں لکھے ہوئے ہیں اور یہ پروفیسر ڈاکٹر اپنے ناموں کو ماہانہ کی بنیاد پر صرف بیچ رہے ہیں مگر کوالیفائیڈ اساتذہ کی فیزیکل دستیابی نہیں، جبکہ پہلے ہی میڈیکل کالجوں میں کوالیفائیڈ اساتذہ کی شدید کمی ہے لیکن ان نجی میڈیکل کالجوں نے ڈگریاں برائے فروخت رکھ دی ہیں ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی میڈیکل کالج کو 50داخلے کرنے کی اجازت ہے تو وہ 60سے زیادہ داخلے کرتا ہے اور جب امتحان کیلئے داخلہ بھیجا جاتا ہے تو دس کو کسی نہ کسی اعتراض پر روک لیا جاتا ہے ۔ اس طرح کروڑوں روپے ہڑپ کئے جا رہے ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم کسی ایک مضمون میں کم نمبر لے تو دوبارہ امتحان کے لئے پورے سمسٹر کی فیس وصول کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو طالب علموں کو جان بوجھ کر فیل کر دیا جاتا ہے ڈاکٹری کا شعبہ ایک طرح سے خدمت کا شعبہ سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر بن کر وہ قوم کی خدمت کریں گے لیکن ایک شخص جب پیسہ لگا کر ڈگری خریدے گا تو وہ سارے کام پیسہ کمانے کے لئے کرےگا ،وہ ڈاکٹر جو زندگی دینے کی تدبیر کرتے ہیں اب موت دینے کا کاروبار کرنے لگے ہیں اور پھر آئے روز احتجاج بھی یہی ڈاکٹر کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ان سب کو ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی ہے کیا وہ خود چاہتی ہے کہ زندگی دینے کی بجائے موت دینے والے ڈاکٹرز ان میڈیکل کالجوں میں پیدا کئے جائیں ۔ کیا اس معتبر شعبہ کو خود حکومتیں تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ اس مرتبہ جب موت دینے والے سوداگروں کا یہ کاروبار عروج پر پہنچا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاںثاقب نثار نے از خود نوٹس تو لیا ہے کہ نجی میڈیکل کالجوں میںیکساں پالیسی اختیار کیوں نہیں کی جاتی ۔ اس کے بعد خادم اعلیٰ کو بھی ہوش آیا اور پنجاب بھر کے نجی میڈیکل کالجوں کا سروے کرانے کا حکم دیا ہے کہ دیکھا جاہے کہ کون سا ادارہ ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اور چارٹر کے مطابق کام کر رہا ہے اور کون سا نہیں۔ یہ بھی رپورٹ مانگ لی ہے کہ پنجاب میں سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے کے کون کون سے غیر قانونی میڈیکل کالجوں کے کیمپس ہیں۔ کیا ڈاکٹری کے نام پر قصاب بنانے کا یہ کاروبار اسی طرح عروج پر رہے گا اور چند دن کے شور کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا؟ اگر حکمراں اس ملک کی خیر خواہی چاہتے ہیں تو پھر انہیں نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کے لئے حقیقی معنوں میں ایک معیار بنانا ہوگا ۔ پی ایم ڈی سی کو عارضی پالیسی پر چلانے کی بجائے مستقل پالیسی بنانا ہوگی اور رشوت کے عوض دیئے گئے اجازت نامے منسوخ کئےجانے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر ڈاکٹروں کی جگہ قاتل پیدا کرنے کی ذمہ دار حکومت ہے
چوتھا ستون!
لاہور پریس کلب مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے گزشتہ برس سے لائف ممبرزاور سینئرصحافیوں سے ملاقات کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس میں ان کے صحافتی تجربات اور یاداشتوں سے نہ صرف نوجوان صحافی مستفید ہوتے ہیں بلکہ سنیئرز کی حوصلہ افزائی کی یہ روایت بھی بہت عمدہ ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ایسی ملاقات میں سینئر صحافی، پی ٹی وی کے اینکر جواد فیضی کو اس لئے مدعو کیا گیا کہ انہوں نے سرکاری ٹی وی پر پروگرام ’’چوتھا ستون‘‘ کی ایک ہزار قسطیں مکمل کیں۔ یہ واحد پروگرام ہے جس میں تسلسل کے ساتھ نہ صرف ورکنگ جرنلسٹوں کے مختلف مسائل کو اجاگر کیا گیا اور ملک بھر کے سیاسی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کی جاتی رہی بلکہ اس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا جاتا ہے۔ میری رائے میں اس پروگرام نے سرکاری ٹی وی چینل کی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ میں پی ٹی وی کے چیئرمین کو یہ تجویز کرتا ہوں کہ عوامی مسائل کے حوالے سے دیگر ایسے پروگراموں کا اضافہ کرنا چاہئے یہ سرکارکی ذمہ داری بھی ہے کیونکہ وہ تو ہر بجلی صارف سے ماہانہ 35روپے کی مدد میں اربوں روپے اکٹھا کرتی ہے۔ ایسے کرنے سے لوگوں میں اعتماد بحال ہوگا۔ امید ہےمسائل کو اجاگر کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہیگا ۔

تازہ ترین