• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے ہر سیاسی اور مذہبی جماعت نے ابھی سے سیاسی اٹھک بیٹھک شروع کردی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کیلئے اپنے بھائی میاں شہبازشریف کے نام کا اعلان کردیا ہے یوں فی الحال وزارت عظمیٰ کے یک نہ شد سہہ شد امیدوار میدانِ سیاست میں دیکھے جاسکتے ہیں مسلم لیگ ن جو فی الحال حکمران جماعت بھی ہے کہ امیدوار میاں شہباز شریف ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے نوجوان امیدوار جو ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں تیسرے امیدوار تحریک انصاف کے عمران خان صاحب ہیں جنہیں یہ قطعی یقین ہے کہ آنے والے انتخاب میں صرف وہی کامیابی حاصل کریں گے باقی سب ہار جائیں گے۔ اہل سیاست اور اہل ریاست کو بخوبی اندازہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی مذہبی جماعتیں اتحاد کی کوشش کر رہی ہیں اور متحدہ مجلس عمل تشکیل دے رہی ہیں کسی حد تک تو ان کا اتحاد بھی ہوچکا ہے لیکن چونکہ سیاسی جماعتوں کی نسبت مذہبی جماعتوں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے بڑی بڑی جماعتیں تو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہی ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی مذہبی جماعتیں شامل کر کے مضبوط متحدہ مجلس عمل وجود پاسکتی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ دنوں فیض آباد میں ہونے والے دھرنے کے بعد حکمرانوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اس کا راستہ روکنے کیلئے حکومت کے ایما پر یہ متحدہ مجلس عمل متحرک کی گئی ہے چونکہ اس میں تمام ہی مکاتب فکر اور مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر ایک نشان کے تحت الیکشن لڑنا ہوگا یوں اگر دھرنے والوں کی ٹیم یا جماعت الیکشن میں حصہ لے گی بھی تو اس کے ووٹ بہ آسانی کٹ جائیں گے اور یہ بھی افواہ ہے کہ اگر متحدہ مجلس عمل کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا وزیراعظم بھی آسکتا ہے لیکن ایسا ہوتا کہیں دور دور نظر نہیں آرہا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار شہباز شریف ان تمام امیدواروں میں مضبوط نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے جس طرح پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد پنجاب میں جو کام کر کے دکھایا ہے وہ بہت اہم اور نظر آرہا ہے، انہوں نے زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ واقعی کام ہوا نظر آرہا ہے اس لئے عوام امید کرسکتے ہیں کہ اگر وہ وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدل جائے اور وہ واقعی پاکستان کو حقیقی ترقی دلا دیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار بلاول بھٹو سیاست میں ابھی نئے نئے آئے ہیں انہیں ابھی سیاست کی الف ب کا بھی پوری طرح پتا نہیں، انہیں ان کی پارٹی چلا رہی ہے خصوصاً ان کے والد جبکہ ان کے کارکنان اور حمایتی خوش ہیں وہ صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کا نام استعمال کر رہے ہیں دوسری اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں عرصہ دراز سے سے ہے لیکن سندھ کی زبوں حالی اور تباہی منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ بدعنوانی اور کرپشن عروج پر ہے۔ جانے اس پارٹی کے اکابرین کو بھرپور کامیابی کی امید کیوں ہے، وزارت عظمیٰ کے خواب دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ 2013کا الیکشن ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا لیکن رہنما اورپارٹی نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی نہ ہی سبق سکھا وہی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
یقیناً تحریک انصاف کے عمران خان نے نوجوانوں کوجوش دلایا ہے۔ تحریک انصاف کو تمام تر کوششوں کے بعد ایک صوبے میں اقتدار نصیب ہوا ہو جو جلد الیکشن کی نذر ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ عمران خان نے جو بڑے بڑے دعوے کئے تھے وہ پورے ہوتے دور دور نظر نہیں آرہے، خیبر پختونخواہ جیسا پہلے تھا ایسا ہی اب بھی ہے، نیا پاکستان بنانے والے نیا خیبر پختونخواہ نہ بنا سکے اگر کہیں پورے ملک کا اقتدار انہیں مل جاتا پھر بھی کوئی کام نہیں ہوتا اس لئےآنے والے الیکشن میں ان کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی خاص کارنامہ نہیں دکھائی دیتا جس سے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہوں نہ ان کی جماعت نے حزب اختلاف کے حوالے سے کوئی اہم کارنامہ سر انجام دیا ہے جو ان کی جماعت کو قومی سطح پر مضبوط کرتا، سوائے الزام تراشی، بدعنوانی کے حوالے کے وہ بھی ناقابل یقین اور پایہ ثبوت کو پہنچے بغیر تحلیل ہونے والے الزامات یعنی الزام برائے الزام ہی کہا جاسکتا ہے عمران خان نے نہ ان کی جماعت نے قومی اور صوبائی سطح پر کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس سے ملک و قوم کو کسی طرح فائدہ پہنچا ہو یا پہنچنے کی امید ہوئی ہو۔
قرعہ فعال متحدہ مجلس عمل کے نام نکل بھی آئے تو ان میں سے کس جماعت کے سربراہ کو مجلس عمل وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کرے گی ہر جماعت کا امیر چاہے گا کہ اس کے اتحاد کی وجہ سے کامیابی نصیب ہوئی ہے اس لئے وہی اس قابل ہے کہ مسند اقتدار پر بیٹھے یوں اختلافات کی نوبت آسکتی ہے، یا پھر کوئی قوت یہ چاہتی ہے کہ اس بار گزشتہ الیکشن کی طرح کسی بھی جماعت کو اکثریت نہ حاصل ہوسکے، مقتدر جماعت اپنی حلیفوں کی محتاج رہے کسی کو بھی اپنی عددی برتری کے باعث آنکھیں دکھانے کا موقع نہیں ملے، عوام ہوش مندی سے کام لیں اور وطن عزیز کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجربہ کار اور دیانت دار افراد کو منتخب کریں۔ ملک و قوم کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے والوں کو قوم اچھی طرح پہچان چکی ہے اگر اب بھی وڈیرہ شاہی، سرکار سائیں کے چنگل میں پھنسے رہے اور اپنا قیمتی ووٹ پیر سائیں کے حکم اور سرکار سائیں کے اشارے پر ڈالے گئے تو پھر وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ملک و قوم کو ایک بار پھر موقع عطا کر رہا ہے کہ اگر اپنے وطن عزیز کی تقدیر بدلنا چا ہتے ہو تو کھلی آنکھوں سے خود فیصلہ کرو کہ تمہیں کس راہ پر چلنا ہے کیا یوں ہی ہمیشہ جوہری توانائی حاصل کرنے کے باوجود دستِ سوال غیروں کے آگے دراز رکھنا ہے یا اپنے پیروں پر بھی کھڑا ہونا ہے۔ چین ہمارے بعد آزاد ہوا، اسرائیل ہمارے بعد صفحہ ہستی پر نمودار ہوا لیکن آج وہ تمام دنیا اسلام کے سینے پر ناسور بنا بیٹھا ہے کیونکہ ان کے اہل سیاست اور اہل ریاست نے پوری دیانت داری سے ملک و قوم کے مفادات کی حفاظت کی ہے۔ ہم ذاتی مفادات سے نکل ہی نہیں پا رہے اجتماعی مفادات پس پشت ڈال کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، عوام نے بھی خواص نے بھی، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

تازہ ترین