• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کےازلی دشمن بھارت کے نیوی کمانڈر اور ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی اپنی بیوی اور ماں سے ملاقات کے انتظامات ، اہمیت، حفاظتی پروٹوکول اور ملاقات کے مناظر ’’جیو‘‘ پر دیکھے ۔ کلبھوشن کی بیوی اور والدہ کو اسلام آباد آمد پر بھارتی ہائی کمیشن اور ملاقات کے بعد پھر بھارتی ہائی کمیشن واپسی کے علاوہ بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کی ملاقات میںموجودگی کے باوجود قونصلر سروس کی رسائی سے انکار کا جواز بھی وزارت خارجہ کے ترجمان کی زبانی سنا اور ملاقات کے بعد بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کے، واپس لے جانے کیلئے گاڑی کی آمد میں چند سیکنڈ کی تاخیر پر برہمی کے اشارے بھی دیکھے۔ ابھی اس ملاقات کے بارے میں بھارتی موقف تادم تحریر آنا باقی ہے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ کلبھوشن کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کا خون اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کے طویل ریکارڈ کے اعتراف اور سزا ہونے کے باوجود پاکستانی فیصلہ سازوں  نے انسانی بنیادوں پر یہ ملاقات کراکے دنیا بھر میں اپنے سافٹ امیج، انسان دوست معاشرتی اصولوں اور پاکستان دشمن بھارتی پروپیگنڈہ کا بڑا موثر جواب ضرور دیا ہے جس کے جواب میں نہ تو بھارتی موقف میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی بھارت کا پاکستان دشمن رویہ نرم ہوگا۔ لیکن موجودہ صدی کی عالمی، سفارتی اور عملی دنیا میں انسانی حقوق، مرد و زن کی مساوات، جمہوری روایات، عمل میں برتر امریکہ کی نقل کرنے والے بااختیار اہلکار ملاقات کا یہ شاندار اہتمام کرانے سے قبل امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی ملک اسرائیل کے جوناتھن پولارڈ نامی جاسوس کی امریکہ میں گرفتاری، مقدمہ، سزا اور ملاقاتوںکے حقائق پر نظر ڈال کر قومی مفادات کے خلاف جاسوسی کرنے والے کے بارے میں مجرموں کے ساتھ سلوک کی مثال کو اپنالیتے تو اس امریکی عمل کا حوالہ دیکر دنیا پر واضح کرنے میں آسانی رہتی کہ پاکستان میں جاسوس، دہشت گردی اور تباہی کے ذمہ دار غیرملکی دشمنوںکے ساتھ پاکستان کیا سلوک کرسکتا ہے۔ جوناتھن پولارڈ نامی شخص کو 21 نومبر 1985 میں امریکہ میں اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے نہ تو کسی امریکی شہری کا خون کیا تھا نہ ہی دہشت گردی کی پلاننگ یا واردات کی تھی نہ ہی جعلی نام سے پاسپورٹ بنوایا تھا بلکہ وہ امریکہ کا پیدائشی شہری اور اسرائیل کی دہری شہریت کا حامل تھا اور امریکی حکومت کا ملازم بھی تھا۔ اس نے اسرائیل کیلئے جاسوسی کرتے ہوئے اسرائیل کو یہ امریکی راز پہنچائے کہ امریکہ کے وہ دس جلدوں پر مشتمل کونسے انٹیلی جنس سگنل استعمال کرتا ہےاورکئی ہزار ایسے افراد کی فہرست بھی اسرائیل کو فراہم کی جن میں ایسے پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے جو امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ اپنی گرفتاری کے صرف سات ماہ بعد ہی جوناتھن  نے اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے کا اعتراف امریکی عدالت میں کرلیا اور مارچ 1987 میںاسے عمرقید کی سزا سنادی گئی۔ ادھر اسرائیل نےبھی یہ تسلیم کرلیا کہ جوناتھن اسرائیل کیلئے کام کررہا تھا۔ خاموش سفارتکاری میں بھی اسرائیل نے امریکہ پر ہر طرح کا دبائو استعمال کیا کہ وہ جوناتھن کو رہا کرکے اسرائیل کے حوالے کردے وہ بقیہ سزا اسرائیل میں کاٹ لے گا۔جوناتھن کے بدلے روس میں قید امریکی جاسوس کو رہا کرانے ،اسرائیل میں قید کلنگ برگ نامی جاسوس کو رہا کرنے کی پیشکش ہوئی۔ یوسف امیت نامی اسرائیلی فوجی کو امریکہ کی جاسوسی کے الزام میں 12 سال کی سزا سے رہا کرنے کی آفر کی۔ نوٹرڈیم یونیورسٹی کے بااثر سابق صدر اور پولارڈ فیملی کے دوست تھیوڈرہیس برگ نے کوشش کی کہ جوناتھن اسرائیل نہیں جائے گا اور امریکی شہریت بھی ترک کردے گا، کسی تیسرے ملک مثلاً فرانس میں چلا جائے گا لیکن اس تمام عرصہ میں امریکہ میں بدلتی حکومتوں نے امریکہ اسرائیل اتحاد و تعلقات کے باوجودکسی ایک آفر کو بھی منظور نہیں کیا۔ 2002 میں اسرائیلی موجودہ وزیراعظم نے امریکہ کی جیل جاکر جوناتھن پولارڈ سے عام قواعد و ضوابط کے مطابق ملاقات کی۔ جوناتھن کو امریکی محکمہ خارجہ میں نہیں لایا گیا۔ اس سے قبل 1999 کے اسرائیلی انتخابات میں نیتن یاہو کا انتخابی وعدہ تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو جوناتھن پولارڈ کو امریکی قید سے رہا کرائے گا لیکن کسی بھی ڈیموکریٹ یا ریپبلکن امریکی حکومت نے پولارڈ کیلئے نہ تو ملاقاتوں کا شاندار اہتمام کیا اور نہ ہی نرمی دکھائی۔ جون 2011 میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے 70 ممبران نے مشترکہ درخواست بھیجی کہ جوناتھن کا باپ بیمار ہے لہٰذا اس کی جوناتھن  سے ملاقات کرائی جائے لیکن صدر اوباما نے امریکی قوم کےراز کی جاسوسی کرنےوالے جوناتھن پولارڈ سے ملاقات کیلئےیہ درخواست مسترد کردی۔ پھر جب جوناتھن کا بیمار باپ فوت ہوگیا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے باپ کی تدفین میں جوناتھن کی شرکت کی اجازت مانگی جسے صدر اوباما نے پھر مسترد کردیا۔جی ہاں!یہ اسرائیل کے سرپرست، اتحادی اور مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت کی بدولت طاقتور اتحادی اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنےوالے دہری شہریت اسرائیلی اور امریکی کے حامل جوناتھن پولارڈ کے ساتھ امریکی سلوک کی حقیقی کہانی ہے۔ وہی اسرائیل جس کی خاطر چند روز قبل امریکہ عالمی سفارتی محاذ پر تنہا ہوگیا ۔ 21 نومبر 1985 کو گرفتار ہونے والے جوناتھن پولارڈ کو 20 نومبر 2015 میں سزا پوری کرنے پر پیرول پر رہائی ملی کہ امریکہ کے قومی رازوں کی جاسوسی کرنے والے امریکہ کےدشمن ہوں یا دوست، انہیں نہ تو شہرت، نہ پروٹوکول اور نہ ہی رعایت ملے گی۔ کلبھوشن یادیو کے ہاتھوں  پاکستانی محافظوں اور بے گناہ انسانوں کے خون کے اعترافی ثبوت موجود ہیں ۔ پولیس افسر اسلم چوہدری، رینجرز اور فوجیوں کا خون اور پلاننگ ہے، اگر وہ گرفتار نہ ہوتا تو پاکستان کی تباہی اس کی زندگی کا مشن تھا لیکن ہم نے اپنے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھنے کی بجائے اپنے غلط فیصلوں کا ہمیشہ اخلاقی، اصولی، انسانی اور اسلامی پاسداری کے نام پر جواز پیش کیا۔ 16 سال قبل افغانستان کی جنگ میں 8 منٹ کے ایک فون پر امریکی اتحادی بننے کے تباہ کن فیصلے کو بھی ہم نے اصولی اور اسلامی رنگ دیکر خوشحال پاکستان کی عوام کو خوشخبری سنائی۔ جوناتھن کے معاملے میں اسرائیل عالمی عدالت انصاف میں نہیں گیا کیونکہ امریکہ عالمی عدالت انصاف کی ثالثی حیثیت کو اپنے کسی ایک فوجی کیلئے بھی تسلیم نہیں کرتا۔ جس عالمی عدالت کو بھارت نے کشمیر سمیت کسی بھی معاملے کیلئے تسلیم ہی نہیں کیا ہم وہاں بھارت کی ایک بے جواز درخواست کے ساتھ بندھے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور جوابدہی بھی کرتے ہیں ۔ بھارت نے کتنے ہی افراد کو پاکستان کے جاسوس قرار دیکر سزائے موت سے لیکر مختلف سزائوں پر عمل کر ڈالا، ہم کو تو نہ عالمی عدالت انصاف یاد آئی اور نہ ہی بھارت نے کلبھوشن کے معاملے کی طرح کبھی پاکستان کو ایسی شاندار رسائی دی۔ بھارت کے ساتھ آگے بڑھ کر پاکستان کے نرم سلوک کو ہمیشہ بھارت نے پاکستان کی کمزوری سمجھا۔ میری رائے میں تو بہتر ہوتا کہ پاکستانی فیصلہ ساز کلبھوشن کے مسئلےپر جوناتھن پولارڈ کے معاملے میں امریکی رویئے کی مثال کو اپناکر اس کا حوالہ دنیا کے سامنے پیش کرتے۔ ممکن ہے کہ بعض قارئین میری رائے کو ’’ہارڈ لائن‘‘ قرار دیں۔ لیکن دیکھئے کہ ہمارے اس حسن سلوک کا بھارت کی طرف سے کیا جواب ملتا ہے اور آج کی تیز رفتار دنیا میں اس عمل کا اثر کتنےروز قائم رہتا ہے۔آج کی عالمی اور سفارتی حقیقت میں اخلاقیات، اصول اور ایسے جواز صرف کمزور اقوام کیلئے رہ گئے ہیں۔ہم امریکی ریمنڈ ڈیوس، بھارتی جاسوسوں کو رہا کرکے کتنی خوش اخلاقی کا دنیا کے سامنے مظاہرہ کرچکے ہیں، اس کے نتیجے میں ہمیں آج تک کیا ملا؟ آج کی دنیا اسی کی ہے جو اپنی قوت اور وقار کا مظاہرہ کرے۔

تازہ ترین