• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

-oقائداعظمؒ، بانی پاکستان کے ایام بیماری سے لے کر ایمبولینس تک کی کہانی؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oمادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی موت پر اٹھائے گئے یا اٹھنے والے سوال؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oلیاقت علی خان کے قتل کے اصل کردار؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oگورنر جنرل غلام محمد مرحوم کے اسمبلی توڑنے، جسٹس (ر) منیر کے اس غیر آئینی اقدام کو جائز قرار دینے، اسپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین مرحوم کا برقعہ پہن کر لاہور ہائیکورٹ میں آئین کی پہلی توہین پر پہلی دہائی کی داستان کے درمیان سے ہو کر ایوب خان نے کس کس کے ساتھ کیا منصوبہ بندیاں کیں؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oایوب سے پہلے کی سیاسی حکومتیں بار بار اتھل پتھل کیوں ہوتی رہیں؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oپاکستان دو ٹکڑے کیوں ہوا؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oذوالفقار علی بھٹو کے عہد اقتدار میں جتنے سیاسی قتل ہوئے ان کی تفصیلات و مقدمات کے ابواب کہاں گم ہو گئے؟ کیا فیصلے سامنے آئے؟ عدالتوں نے کس کس قتل پر کیا فیصلے صادر کئے؟ بھٹو کے مقدمہ کے علاوہ؟
یہ بھی تاریخ سے پوچھیں!
-oذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977کی تحریک اور ضیاء کی آمد کی رات کے حقائق؟
یہ بھی ’’سی آئی اے‘‘ کے بجائے تاریخ سے ہی پوچھیں!
-oپاکستان کی دھرتی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو علی الاعلان عدالتی قتل قرار دیتی ہے، اس پہ کبھی ’’توہین عدالت‘‘ کا مقدمہ کیوں نہیں درج کیا گیا؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oضیاء الحق کے طیارے کا معاملہ؟
تاریخ سے پوچھیں!
1988-oتا 1999، بے نظیر بھٹو شہید اور محمد نواز شریف، دونوں کی منتخب حکومتوں کو دو دو بار کیوں برطرف کیا گیا؟
کہانیوں کے انباروں میں سچی کہانیاں کیا ہیں؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oجنرل (ر) پرویز مشرف 12اکتوبر 1999کو شام ڈھلے، جب پاکستانی طیارے سے پاکستان کے آئینی اقتدار کی مقدس چھت پر اپنے لانگ بوٹوں سمیت اتر کر پائوں رکھنے کی تیاری کر رہا تھا، اس وقت جنرل محمود اور جنرل عزیز وغیرہ نیچے زمین پر کیا کر رہے تھے اور یہ کہ سری لنکا کے دورے سے لے کر آئین پاکستان کی گردن پر ایڑی رکھنے تک کے ’’قصہ چہار درویش‘‘ کی ’’سچی الف لیلہ‘‘ کیا ہے؟
تاریخ سے پوچھیں!
27-o؍دسمبر 2007 کو عالم اسلام کی ممتاز ترین خاتون رہنما اور پاکستان کی صد واجب الاحترام منتخب لیڈر کی شہادت، کہاں منصوبہ بندی ہوئی؟
تاریخ سے پوچھیں!
-oپاکستانیوں کو ’’تاریخ سے پوچھنے‘‘ کے کام پر لگانے سے جناب ڈاکٹر طاہر القادری، جناب خادم حسین رضوی، محترم و مکرم فرقہ واریت کی علمبردار ہستیوں، خود کش جیکٹس کے مراکز کا اتا پتا حتیٰ کہ جناب عمران خان کا 2014کا دھرنا، یہ سب تاریخ سے ہی پوچھنا پڑے گا، گویا پاکستانی ڈے ٹو ڈے لائف ‘‘ کے معمولات، فاتحہ پڑھ لیں، ان 70برسوں کی جو ’’پوشیدگیاں‘‘ کونے میں بیٹھ کر ’’استراحت‘‘ فرما رہی ہیں، انہیں ڈھونڈنے کے لئے تاریخ کے دروازہ پر دستک دیتے پھریں؟ کیوں بھئی؟ ہم پاکستانی بیچارے اس مشن کے کیونکرمکلف ہیں؟ جس نے یہ دنیا بنائی، جو اس کا مالک و مختار ہے، وہ خود نمٹ لے گا، ہو سکتا ہے بہت سوں کے ساتھ نمٹ چکا ہو، اس لئے ’’تاریخ کی اس معروضیت‘‘ کا جس کا ہم پر اطلاق ہی نہیں ہوتا، ایک طرف رکھیں اور بی بی شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کا نیک کام کرتے ہیں!وہ علم کی علامت، حوصلے کا ثبوت اور عزم کا استعارہ بن کے ہمارے درمیان رہتی ہیں، رہیں گی! وہ اس زمینی سیارے سے بے نظیر زندگی اور بے نظیر شہادت کے ساتھ رخصت ہوئیں!
ان کے سیاسی اثاثوں میں جو ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، ایک جہان ان کے نظریات اور قربانیوں کا معترف ہے، بی بی کا انمٹ اثاثہ ایک اور بھی ہے، وہ ہے علم اور وقار!
میرے ایک دوست نے بہت عرصہ پہلے ایک ٹویٹ کیا تھا، ملاحظہ فرمایئے!
-oجعلی تاریخ!
-oجعلی ہیروز!
-oجعلی مشنز (Missions)
-oجعلی اخلاقیات!
-oجعلی عقائد!
-oجعلی سازشیں!
-oجعلی پابندیاں
-oجعلی نتائج
اس نے سوال پوچھا تھا:’’یہ سب کہاں پایا جاتا ہے؟‘‘ اس ون ملین ڈالر کے سوال کا جواب دینے کی نہ اس وقت جرأت تھی نہ آج ہے، ہاں! اس دوست کو ایک واقعہ کا حوالہ دے کر بات ختم کر دی تھی، آپ بھی سن لیں! بہت برس ہوئے میں نے الطاف گوہر کی اخبارات میں ایک پریس کانفرنس کا حال یا ان کا کوئی مضمون پڑھا تھا، اس کا یہ جملہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ انہوں نے کہا یا لکھا تھا ’’پاکستان کی سرزمین پر پورا سچ نہیں بولا جا سکتا‘‘، اب مزید وقت گزرنے پر اس صداقت میں ایک اضافہ کرنے کو دل چاہتا ہے یعنی پورا سچ کسی سرزمین پر بھی نہیں بولا جا سکتا، یہاں تک کہہ لو، پورا سچ مرنے سے پہلے شاید بولا ہی نہیں جا سکتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ یہ بات بھی لندن جا کر کہہ یا لکھ سکے تھے، اس صداقت میں بس ایک جوہری تبدیلی آ چکی ہے، اب لندن میں بیٹھ کر بھی پاکستان کے حوالے سے ’’پورا سچ‘‘ نہیں بولا جا سکتا، ’’نیک اور حافظ‘‘ دونوں میں سے کوئی بھی وہاں یا وہاں پر موجود اپنے جاں نثاروں کو جنت اور حب الوطنی‘‘ کی یاد دلا کر آپ کا حساب برابر نہیں، صاف کر سکتا ہے!
بعض اوقات دل چاہتا ہے، مجھے ایک جینوئین ریسرچر فراہم کر کے ’’برمودا تکون‘‘ کے کسی ایسے جزیرے میں پناہ گزیں کرایا جائے جہاں تکون کی ’’کشش ثقل‘‘ ہمیں متاثر نہ کر سکے، آپ کو معلوم ہے اس تکون کے دائرہ کشش ثقل میں آنے والے جہازوں تک کا پتا نہیں چل سکا، ہم تو پرزوں اور ذروں سے بھی باریک تر ’’مالیکیولز‘‘کی شکل اختیار کر لیں گے، وہاں پناہ گزین ہونے کے بعد پاکستان کے گزشتہ قریب قریب 70برسوں کا حال احوال مرتب کر کے ان کرداروں اور اسباب کی نشاندہی کر سکتا ہوں کہ جنہوں نے ’’کیڑے کھائے‘‘ اور زمانے بھر کی بدنامی انہیں کھا گئی، جو ’’ہاتھی‘‘ ڈکار گئے کوئی مائی کا لال ان سے بڑا فاقہ کش Establishنہ ہو سکا۔
لیکن بی بی شہید، جو بے نظیر زندگی اور بے نظیر شہادت کے ساتھ یہاں سے منتقل ہوئیں وہ تو ’’اصل الاصل‘‘ ’’ہیرو‘‘ تھیں، جن کا مقدمہ قتل آج بھی سوالیہ نشان ہے، شائع شدہ تفصیلات کے مطابق10برس کی کارروائی کے دوران میں 300سے زائد سماعتیں ہوئیں 6جج تبدیل ہوئے یا کئے گئے، 67گواہ پیش ہوئے جے آئی ٹی پنجاب، اسکاٹ لینڈ یارڈ، اقوام متحدہ اور ایف آئی اے نے تفتیش کی، مگر ہائی پروفائل ’’متعین فرد‘‘ کا تعین نہیں کیا جا سکا، چھوڑیں، اپنا موقف واپس لیتے ہیں اور بی بی شہید کے قاتلوں کا بھی تاریخ سے ہی پوچھتے رہیں گے!

تازہ ترین