• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے نائب صدر مائیکل پنس نے کابل میں اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو واشگاف لفظوں میں دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی تو اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ انہی دنوں میں امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے اور ملک میں ٹیکس کٹوتی کے ایسے قوانین منظور کئے ہیں جن کے تحت سب سے زیادہ امیر طبقے کو کھربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں غریب عوام صحت کی سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ صدر ڈونلڈٹرمپ ارب پتیوں کی سربراہی میں بننے والے سیاسی اتحاد کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا عالمی معاملات میں بھی یہی رویہ ہے کہ امریکہ کی سامراجی پالیسی کو دھونس کے ذریعے دنیا میں نافذ کیا جائے۔ وہ بنیادی طور پر جنگل کے قانون پر عمل پیرا ہیں جو کہ ڈارون کے مقولے ’’طاقتور کی بقا‘‘ پر مبنی ہے۔ اگر صدر ٹرمپ اپنی موعودہ پالیسیوں پر عمل کرتے رہے تو امریکہ کے اندر بھی بحران پیدا ہو سکتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک کی زندگی اجیرن ہو سکتی ہے۔
امریکہ کا موجودہ حکمران طبقہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے ملک کے غریب عوام اور دنیا کے کمزور ملکوں اور گروہوں کے خلاف ایک جیسا جابرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک مخصوص طرزکا سیاسی اتحاد تشکیل دے چکے ہیں جس میں ارب پتی، امیر کارپوریشنیں، قدامت پرست عیسائی اور سفید فام نسل پرست شامل ہیں۔ ویسے تو ریپبلکن پارٹی کے تحت اس نوع کا سیاسی اتحاد کئی دہائیوں سے قائم ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں یہ سیاسی اتحاد اپنی انتہائی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس اتحاد میں شامل امیر طبقات تو خالصتاً معاشی مفادات کے خواہاں ہیں لیکن قدامت پرست عیسائی اور سفید فام نسل پرست سماجی اور ثقافتی ایجنڈے کو بنیاد بنا کر تارکین وطن ، مسلمانوں اور غیر سفید فام لوگوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔مذکورہ اتحاد امریکہ کی اکثریت کا نمائندہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے صدر ٹرمپ کی مقبولیت 35فیصد کے قریب گھوم رہی ہے لیکن امریکہ کے اداروں کا نظام ایسا ہے کہ حکمران اشرافیہ اپنے فیصلے زبردستی ٹھونس سکتی ہے۔
اس سے پہلے بھی ریپبلکن پارٹی کے قدامت پرست ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نعرے لگا کر حکومت میں آتے رہے ہیں لیکن وہ حکومت میں آنے کے بعد مرکزی دھارے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو معتدل بنا لیتے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مخصوص حلقہ اثر کے لوگوں سے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ مثلاً انہوں نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کے عہد کو پورا کیا اور کچھ مسلمان ملکوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کردیا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ وہ امیگریشن کے قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے تحت تارکین وطن اپنے رشتہ داروں کو بلانے سے قاصر ہو جائیں گے۔ وہ نسل پرستوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے لئے صدر باراک اوباما کے دور میں منظور کئے گئے تمام قوانین اور ضابطوں کو منسوخ کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے جو ٹیکس کٹوتی کا قانون منظور کروایا ہے اس کے تحت امیروں کو کھربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا اور باقی عوام کو دی جانے والی سہولتوں کی کانٹ چھانٹ شروع ہو جائے گی۔ غرضیکہ صدر ٹرمپ کی داخلی پالیسیاں عوام دشمن اور غریبوں کے خلاف ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی بھی اس کی داخلہ پالیسی کا پرتو ہے: امریکہ تجارت، کاروبار اور دوسرے پر امن ذرائع کی بجائے فوجی طاقت کے ذریعے دنیا میں اپنی برتری قائم کرنا چاہتا ہے۔
عالمی سطح پر صدر ٹرمپ کچھ تجارتی معاہدوں کو منسوخ کر چکے ہیں اور باقی ماندہ (نیفٹا)کو ختم کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو عالمی سطح پر کئے گئے ماحولیاتی معاہدہ پیرس سے باہر نکال لیا۔ شمالی کوریا کے مسئلے پر بھی وہ فوجی طاقت استعمال کرنے کے علاوہ ایران سے کئے گئے جوہری معاہدے کی تنسیخ کے عمل کو شروع کر چکے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدور کی کئی دہائیوں کی اسرائیلی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے یروشلم پر یہودی ریاست کے حق کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب امریکہ مشرق وسطی میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا اہل نہیں رہا۔ صدر ٹرمپ پر امن سفارتی عمل کی بجائے امریکہ کو اس کی فوجی طاقت کی بنا پر دنیا کی ایسی سپر پاور بنانا چاہتے ہیں جس سے خوف آئے اور اس کی عزت کی جائے۔
پاکستان کے ساتھ امریکی پالیسی کو اسی نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنائے اور ایسے اقدامات کرے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ انتظانیہ کے فیصلہ سازی کے انداز کو دیکھا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ عالمی اصولوں اور روایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی مہم جوئی کا شکار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو خواب خرگوش سے جاگنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ امریکی انتظامیہ ماضی کے حکمرانوں سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے بیانیے کو واشنگٹن میں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو سرد جنگ کے زمانے میں افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں پاکستان کے کردار کے شناسا تھے وہ اب منظر نامے سے غائب ہو چکے ہیں۔ اب جو پالیسی ساز امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو مرتب کر رہے ہیں ان کی نظر میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو جہادیوں اور افغان دشمن طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ اب افغانستان میں امریکی فوجوں کے سربراہ اور پینٹاگون کے دوسرے بڑے جرنیل پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اور چونکہ ٹرمپ انتظامیہ پینٹاگون کو حرف آخر سمجھتی ہے اس لئے یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ پاکستان کے خلاف عملی طور پر سخت گیر رویہ اپنائے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

تازہ ترین