• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں ہی ایسے شہر ہیں جہاں دنیا کے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج کی نیت سے جو ہر مسلمان پر اگر استطاعت رکھتا ہو فرض بھی ہے ورنہ کم از کم عمرے کی نیت سے ان دو اہم شہروں کا سفر کرسکے لہٰذا جو مسلمان یہاں پہنچنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺنے انھیں اپنے شہروں میں آنے کی توفیق عطا فرمائی، میں بھی اپنے والدین سمیت خود کو خوش قسمت تصور کررہا تھا کہ ایک دفعہ پھر ان خوبصورت اور پر نور مقامات کی زیارت کی توفیق عطا ہوئی، الحمد اللہ عمرہ مکمل ہوگیا تھا اور مدینہ منورہ کی حاضری کا ارادہ کرچکا تھا، کسی بھی مقامی دوست کو تکلیف میں ڈالے بغیر مدینہ منورہ کے لیے پرائیویٹ کار کے ذریعے آپ ﷺ کے شہر روانہ ہونا چاہتا تھا کہ لیکن سعودیہ میں موجود مہمان نواز پاکستانیوں نے ایسا ہونے نہیں دیا اور ہمارے دوست رانا شوکت اور ملک منظور اعوان نے کافی بحث و مباحثے کے بعد یہ طے کیا کہ رانا شوکت ہمیں مدینہ منورہ لیکر جائیں گے اور ملک منظور اعوان ہمیں مدینہ سے واپس مکہ مکرمہ لیکر آئیں گے جبکہ دونوں دوستوں کی رہائش گاہ جدہ میں ہے کافی انکار کے بعد جب ایک نہ چلی تو رانا شوکت کے ہمراہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، ساڑھے چار سو کلومیٹر کا سفر عموماََ مقامی لوگ چار گھنٹے میں ہی طے کر لیتے ہیں لیکن اگر دوران سفر آپ کہیں رک کر کھانا کھالیں یا نماز کے لیے رکیں تو یہ سفر پھر پانچ سے چھ گھنٹے تک طویل ہوسکتا ہے، جیسے جیسے مدینہ منورہ قریب آرہا تھا اشتیاق دیدار نبی ﷺ بڑھتا جارہا تھا، درود شریف کا ورد بھی جاری تھا جبکہ سرد موسم میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا، مدینہ منورہ میں درجہ حرارت اس وقت پندرہ ڈگری تھا، آسمان صاف تھا جہاں ستاروں نے انتہائی خوبصورت سماں باندھ رکھا تھا بعض جگہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ستاروں نے خوبصورت ترتیب سے نام محمد ﷺ آسمانوں پر لکھ رکھا ہو میں نے آسمان پر موجود ستاروں کی تحریر کی جانب والدین کی توجہ دلائی تو انھوں نے بھی نہ صرف تائید کی بلکہ خوشی سے درود پاک کا ورد بھی شروع کردیا۔ بہرحال ان دونوں شہروں میں تو قدم قدم پر معجزات نظر آتے ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان معجزات کا مشاہدہ کرپاتے ہیں، یہ خوبصورت سفر جو ڈھائی بجے شروع ہوا ساڑھے آٹھ بجے اختتام پذیر ہوا، یہاں بھی ہوٹل حرم پاک سے بالکل ہی متصل تھا لہٰذا کھانے کے بعد فوری طور پر دربار نبوی ﷺ پر حاضری اور سلام اور شکرانے کی غرض سے مسجد نبویﷺ میں داخل ہوئے، مسجد نبوی ﷺکی انتہائی وسیع وعریض رقبے پر توسیع کی جاچکی ہے جہاں لاکھوں افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں، میں چشم تصور میں مدینہ منورہ کے تاریخی شہر کی تاریخ میں گم ہوچکا تھا چودہ سو سال قبل کیسا شہر رہا ہوگا، جہاں حضور اکرم ﷺ اس مبارک زمیں پر چلا کرتے ہونگے، ان کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قدر صحابہ کرامؓ موجود رہا کرتے ہونگے، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علی ؓجیسے اہم ترین صحابہ کرام کے گھر بھی یہی کہیں واقع ہوں گے، رنگ و نور کی محفلیں سجا کرتی ہونگی، عالم اسلام کی تاریخی جنگیں بھی اسی سرزمین سے لڑی گئی ہونگی، غزوہ خندق، غزوہ احد، غزوہ بدر جیسے غزوات کے لیے بھی اسلامی افواج یہاں سے نکلی ہوں گی، مدینہ منورہ میں حاضری کا موقع ملا، ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا، آپ ﷺ کے روزے کی جالیوں کو دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، غرض اللہ تعالیٰ نے تمام خواہشات کو پورا کیا، اگلے روز نماز فجر کے بعد رانا شوکت ایک بار پھر موجود تھے اس دفعہ انھوں نے مدینہ منورہ کی تمام اہم زیارتوں سے متعارف کرانے کا منصوبہ پیش کیا، میں تو خود تاریخ اسلام کی اہم زیارتوں سے بہرہ مند ہونے کا خواہشمند تھا، لہٰذا اگلے روز زیارتوں کا آغاز ہوا، غزوہ خندق کے مقام کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی، جن جن مقامات پر صحابہ کرام ؓ نے خندق کے مقام پر خیمے نصب کیا تھے جنگ کے زمانے میں اپنے خیموں میں ہی نماز ادا کیا کرتے تھے وہاں مساجد تعمیر کردی گئی تھیں، جن میں حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت علیؓ حضرت سلمان فارسیؓ سمیت دیگر مساجد کی یادگار موجود ہیں جبکہ نبی کریم ﷺ نے جہاں فتح کے بعد نماز ادا کی وہاں بھی مسجد تعمیر کی گئی تھی تاہم وہاں اب ان مساجد کی یادگار تو موجود ہے لیکن اب وہاں نمازیں نہیں ہوا کرتیں، جبکہ ساتھ ہی شہداء کا قبرستان بھی موجود ہے، جہاں غزوہ خندق کے دوران شہید ہونے والے مسلمان شہداء کے مزارات موجود ہیں، یہاں سے اگلی زیارت غزوہ احد کا مقام تھا جہاں عالم اسلام کی اہم جنگ لڑی گئی تھی جس میں اللہ کے رسولﷺ خود بھی شریک تھے، یہ جنگ سنہ دو ہجری میں لڑی گئی تھی اس غزوے میں مسلمان جیتی ہوئی جنگ اللہ کے رسول ﷺ کی حکم عدولی کی وجہ سے ہار گئے، اس جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے کفار کے لشکر کی قیادت کر رہے تھے اور اس جنگ میں شکست کے بعد جب وہ فرار ہورہے تھے تو ایک پہاڑ جہاں مسلمان تعینات تھے جو یہ سمجھ کر کہ وہ اب جنگ جیت چکے ہیں مال غنیمت جمع کررہے تھے، حضرت خالد بن ولید نے اس جگہ سے ہی پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا اور ستر سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا اور فتح حاصل کی اس جنگ میں حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی شہادت بھی ہوئی، اس مقام پر ہر روز ہزاروں مسلمان آتے ہیں یہاں مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے، احد کے مقام سے اگلی منزل وادی جن تھی جہاں گاڑیاں بغیر گیئر اور اسپیڈ کے مخالف سمت چلتی ہیں اور ان کی رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک جاسکتی ہے جو انتہائی ناقابل یقین بات لگتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مقام کو وادی جن کہا جاتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ مدینہ کے اس مقام پر بہت زیادہ مقناطیسی لہریں موجود ہیں جو گاڑی کو اپنی جانب کھینچتی ہیں اور بڑی سے بڑی گاڑی مخالف سمت کھینچی چلی جاتی ہے، یہاں سے واپسی میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی بستیاں موجود ہیں جہاں بڑی تعداد میں سیاح جمع ہوتے ہیں اور سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اونٹنی کا تازہ دودھ پیتے ہیں، دن بھر مدینہ کی زیارتوں پر حاضری دینے کے بعد واپس ہوئے تو حسب وعدہ پاکستان یوتھ کونسل کے صدر ملک منظور اعوان موجود تھے اور ہمارا تین افراد کا قافلہ ملک منظور اعوان کی قیادت میں ایک بار پھر مکہ مکرمہ کی جانب عازم سفر تھا جہاں ہم عمرے کی ادائیگی کے خواہشمند تھے لہٰذا مدینہ منورہ سے نکلتے ہی میقات کے مقام پر ایک بار پھر احرام باندھا اور مکہ مکرمہ کے لئے عازم سفر ہوئے، پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد عمرہ ادا کیا، اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس یادگار سفر کی توفیق دینے پر شکرانہ نوافل ادا کئے، مکہ سے روانگی کے بعد دو دن جدہ میں گزارے، سعودیہ میں پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں، جدہ میں چوہدری اکر م گجر اور ملک منظور اعوان کی معیت میں پاکستانی قونصل جنرل شہریار اکبر سے بھی ملاقات کی، نو سو سے زائد پاکستانی ڈرگز کے کیس میں قید ہیں، کئی درجن خواتین جسم فروشی کے الزام میں بھی قید ہیں۔ قونصلیٹ بہترین انداز میں کام کررہا ہے۔ شہریار اکبر صاحب دو سالوں میں کافی بہتری لائے ہیں۔ تاہم سعودی حکومت نے اقاموں کی فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے، جس سے لیبر طبقہ کے لیے اور کاروباری افراد کے لئے اپنی فیملی کو سعودیہ میں رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے جس کے لیے حکومت پاکستان کو بھی سعودی حکومت سے بات چیت کرنا چاہئے تاکہ سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کی پریشانیوں کو کم کیا جاسکے، جدہ میں ہی پاکستان یوتھ کونسل کے زیراہتمام راقم کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی جس میں ڈیڑھ سو معزز کمیونٹی شخصیات نے شرکت کی۔

تازہ ترین