• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ امریکہ عالمِ اسلام کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ انہوں نے عالمِ اسلام کو امریکہ سے محتاط رہنے کے لیے اپنی تقریروں میں برملا اظہار کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے امریکہ ہی کی پشت پناہی سے اسرائیل کے ظالمانہ رویہ سے بھی آگاہ کیے رکھا۔ اگرچہ انہوں نےصدر باراک اوباما کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن انہوں نے باراک اوباما کے خلاف اتنا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا جتنا انہوں نے صدر ٹرمپ کے بارے میں اپنا رکھا ہے۔ شاید اس کی وجہ ٹرمپ کا عالمِ اسلام کےخلاف کھل کر سامنے آنا اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنا ہے۔ یہ ترک صدر رجب طیب ایردوان ہی ہیں جنہوں نے اقوام ِ متحدہ میں پانچ مستقل رکن ممالک جن کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں، کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی اور ببانگِ دہل دنیا کو پانچ ممالک کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کا پرچار کیا۔ دنیا کی مظلوم اقوام نے صدر ایردوان کی اس سوچ کا کھل کر ساتھ دینا شروع کردیا۔ صدر ایردوان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقوام متحدہ ان پانچ مستقل رکن ممالک میں سے امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ دنیا کے یہ پانچ ممالک جب بھی چاہیں کسی بھی مسئلے کو چاہے وہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے اہمیت کا حامل ہو ویٹو کرکے اقوام متحدہ میں بڑی محنت اور جدو جہد سے تیار کردہ قراداد کو مسترد کرسکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ دسمبر کو وائٹ ہائوس میں پریس کے سامنے خطاب کرتے ہوئے ’’بیت المقدس‘‘ کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانے کو جلد ہی ’’بیت المقدس‘‘ منتقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودنے کا آغاز کردیا۔ امریکی صدر کے اس عاقبت نا اندیش فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عالمِ اسلام جو خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا کے چند ایک رہنماؤں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ امریکہ بغیر کسی تردد کے ’’بیت المقدس‘‘ کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرسکتا ہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب کسی بھی اسلامی ملک پر قبضہ کرنے کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اپنی اسی سوچ کے ساتھ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے عالمِ اسلام کے رہنماؤں کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر اندر استنبول میں یکجا کرنے میں کامیابی حاصل کی حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے عالمِ اسلام کو کئی مہینوں میں یکجا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن صدر ایردوان کی مخلصانہ اور انتھک کوششوں کے نتیجے میں ایک دو اسلامی ممالک کو چھوڑ کر عالمِ اسلام کے اہم ممالک کے رہنماؤں نے استنبول میں یکجا ہونے کی ہامی بھرلی۔ صدر ایردوان اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں جو بھی قراداد منطور کروائی جائے گی اس کا براہ راست امریکی انتظامیہ پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ ٹرمپ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکیں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسلامی ممالک ’’بیت المقدس‘‘ کے معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ رجب طیب ایردوان اس لحاظ سے عالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہے۔ ایردوان نے اپنی اس کامیابی کے بعد ہی ٹرمپ سے اقوام متحدہ میں ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے کہ دنیا کی واحد سپر قوت کے رہنما سے ٹکر لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ صدر ایردوان جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اقوام متحدہ میں صرف پانچ ممالک کی حاکمیت اور غلبے کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی تھی۔ وہ اس بات سے پوری طرح باخبر تھے کہ ان پانچ ممالک کے ویٹو کی وجہ سے کوئی بھی اسلامی ملک اپنا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اسلامی ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی جانے والی کوئی بھی قرارداد آج تک منظور نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے فلسطین، کشمیر، قبرص اور اب روہنگیا مسلمان ظلم و ستم سہنے کے ساتھ ساتھ ویٹو کا وار بھی برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود تمام اسلامی ممالک کی طرف سے ترکی نے صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کردی۔ ترکی کی اس قرارداد کی دس عبوری اور چار مستقل رکن ممالک نے تو حمایت کی صرف امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا اور اس طرح یہ قرارداد چودہ ممالک کے مقابلے میں صرف ایک رکن ملک کے ویٹو کرنے کی وجہ سے مسترد کردی گئی۔ ایسے نتیجے کی سب ہی توقع کررہے تھے اور ترک صدر کو بھی معلوم تھا کہ ان کے ملک کی قرارداد کے ساتھ امریکہ ایسا ہی رویہ اختیار کریگا۔ امریکی صدر کو توقع تھی کی معاملہ یہاں تک ہی محدود رہے گا اور مسئلے کو جنرل اسمبلی نہیں لے جایا جائے گا کیوں کہ جنرل اسمبلی میں کسی بھی قراداد کو پیش کرنے کے لیے96ممالک کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اور ترکی شاید یہ حمایت حاصل نہ کرسکے اور اگر اسلامی ممالک ترکی کی حمایت کا اعلان کریں گے جنرل اسمبلی میں قراداد پیش کرنے کے دوران وہ امریکہ کی ناراضی کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرسکیں گے اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ نکی ہیلی اور ٹرمپ نے ان تمام ممالک کوکھلے عام دھمکیاں دیں اور انتباہ کیا کہ اگر ان سے امداد وصول کرنے والے ممالک امریکہ کے خلاف ووٹ دیں گے تو امریکہ ان تمام ممالک کو دی جانے والی امداد روک دے گا۔ صدر ٹرمپ کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ ان کی دھونس میں چھوٹے چھوٹے ممالک کے علاوہ وہ ممالک بھی آجائیں گے جو امریکہ سے بڑے پیمانے پر امداد حاصل کرتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کو اس بار منہ کی کھانا پڑی۔ ترکی نے اقوام متحدہ میں یہ قرارداد یمن کے ساتھ مل کر تیار کی تھی اور پاکستان نے بھی اس قرارداد کی تیاری میں ترکی کا ساتھ دیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود صرف نو چھوٹے ممالک نے ہی امریکہ کا ساتھ دیا اور35ممالک نے ووٹنگ سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔ جنرل اسمبلی میں یورپی یونین اور کسی بھی اسلامی ملک نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا جو صدر ایردوان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ صدر ایردوان نے جنرل اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ریاستوں، انسانوں اور جمہوری اقدار کو رقوم سے نہیں خریدا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ طاقت کو نہیں بلکہ انصاف کو ہمیشہ فتح حاصل ہوتی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے امریکی صدر کو یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ وہ اس وقت تک صدر ٹرمپ سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں جب تک وہ ’’بیت المقدس‘‘ سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرلیتے۔

تازہ ترین