• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)
ایک تقریب میں ملا مسٹر کی تقسیم پاٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ عالمی سطح پر بین المذاہب اور ملکی سطح پر مختلف طبقوں کے درمیان اختلافات دور کرنے کےلئے ڈائیلاگ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ اس پر اتفاق پایا گیا کہ اس طرح کی مجالس سے مکالمے کی نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ خوبصورت تقریب جنوبی پنجاب میں واقع جامعہ خالد بن ولید وہاڑی میں ہوئی۔ اس ادارے کے بانی و صدر جناب مولانا ظفر احمد قاسم کے ہیں، یہ ہر اعتبار سے بہت متحرک شخصیت ہیں، یہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور ان کا یہ ادارہ جنوبی پنجاب کے بڑے، اہم اور ہر اعتبار سے مثالی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں ہر دونوں تعلیمیں مساوی دی جارہی ہیں۔ اس وقت عالمی اور ملکی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام تعلیمی ادارے صرف فنی مہارت اور اعلیٰ تعلیم ہی کو مدنظر نہ رکھیں، بلکہ طالب علموں میں ملک و قوم کی فکر، اپنے دین اور وطن سے والہانہ وابستگی، مسائل کے ادراک اور حل کی تربیت، علم و ناانصانی، کرپشن سے نفرت، رواداری اور معاشرتی رکھ رکھائو کی سوچ اور صلاحیت اجاگر کریں۔ اگر اعلیٰ عصری تعلیمی ادارے اپنے اسٹوڈنٹس کو باصلاحیت، فنی ماہر اور دیانت دار بنا دیں اور دینی عقلی ادارے اپنے طلبہ کو وسیع الظرف، دیانتدار عالم اور پروفیشنل بنادیں تو ملک میں جاری گمبھیر مسائل حل ہو جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عصری و دینی دونوں تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی پائی جاتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک مسٹر حضرات اپنی تقریبات میں دینی مدارس کے علماء و طلبہ کو نہیں بلاتے تھے، اسی طرح اہل مدارس اپنے پروگراموں میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور اسٹوڈنٹس کو مدعو کرنے کے روادار نہ تھے۔ یہ سب استعمار کے دوران متحدہ نظام کی تقسیم کا نتیجہ تھا۔ انگریزوں نے ماضی کے روادار معاشرے کو بے شمار طریقوں سے داخلی طور پر منتشر کیا۔ ان میں ایک صورت نظام تعلیم سے نہ مذہبی تعلیم کی علیحدگی تھی۔ اب حالات آزاد ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ مکالمے ہورہے ہیں۔ یونیورسٹیز میں علماء کےلئے شعبے قائم ہورہے ہیں اور مدارس میں گریجوایٹس کو دینی تعلیم دینے کے لئے کلیۃ الشریعہ جیسے ڈپارٹمنٹ بن رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ کاوشیں مختلف نوعیت کی تھیں، کبھی تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی تجاویز کی شکل میں تو کبھی عصری و دینی تعلیم کے امتزاج والے نظام تعلیم کے اداروں کے قیام کے ذریعے۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نے فرمایا تھا:’’اگر علماء جدید تعلیم حاصل کریں تو ان کے لئے یہ بہت ہی مفید ہوگا۔‘‘ 1903ء میں دارالعلوم دیوبند کے اکابر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ انٹر پاس طلبہ جو دارالعلوم میں داخلے کے خواہشمند ہوں انہیں دس پندرہ روپے ماہوار وظیفہ دیا جائے۔ اسی طرح یہ تجویز بھی رکھی گئی کہ جو طلبہ فراغت کے بعد اگر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہیں، انہیں بھی وظائف دئیے جائیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے کلکتہ میں ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے یونیورسٹی کی سطح کا ایک ادارہ قائم کیا۔ مولانا محمود حسن کے حکم پر مولانا حسین احمد مدنی نے ایک سال اس ادارے کی صدارت کی۔ شیخ الہند کے ذہن میں یہ فکر اس قدر جاگزیں تھی کہ آپ نے ’’جامعہ ملیہ دہلی‘‘ کا سنگ بنیاد اپنے وصال سے صرف ایک ماہ قبل رکھا، جبکہ آپ مالٹا کی اسیری کی صعوبتیں برادشت کر کے نہایت مشکل زندگی بسر کر رہے تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کے وقت دینی حلقوں میں اس کے نظام تعلیم کے حوالے سے جو بعض تحفظات تھے، اس کے نتیجے میں مسلم نیشنل یونیورسٹی کے نام سے ایک آزاد اسلامی یونیورسٹی کے قائم کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ یہ تعلیمی ادارہ دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج کے ساتھ تجویز کیا گیا تھا اور حضرت شیخ الہندؒ نے علالت کے باوجود اس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت اپنی وفات سے محض ایک ہفتے قبل کی۔1926ء مولانا حسین احمد مدنی نے ایک 16سالہ نصاب تعلیم ترتیب دیا تھا جس میں دینی اور عصری علوم کا امتزاج تھا اور جس کا مقصد دینی اور عصری ذمہ داریوں سے باخبر افراد تیار کرنا تھا۔ قاری طیب نے افغانستان کا ایک سفر کیا تھا۔ افغانستان کے سفر سے واپسی پر انہوں نے تجزیہ کیا تھا جس کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ دینی اور دنیاوی تعلیم اس طور پر دی جائیں کہ ان میں موجود تفریق ختم ہوجائے۔ اسی طرح ’’ریاستِ بہاولپور‘‘ کے وزیراعظم نے علامہ شبیر احمد عثمانی کو بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی آنے کی دعوت دی جہاں حضرت 8 دسمبر، 1949ء کو وائس چانسلر کے منصب پر تقرری کے لئے تشریف لے گئے، مگر ان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات کے بعد ’’جامعہ اسلامیہ بہاولپور‘‘ کے نصاب پر غور و خوض کے لئے 1964ء میں علامہ یوسف بنوری کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کے نمائندوں نے شرکت کی تھی اور اس میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے نصاب میں اصلاحات تجویز کی گئی تھیں۔ ان اصلاحات میں دینی اور عصری دونوں تعلیموں کے لئے تجاویز دی گئی تھیں اور عصری تعلیم پر خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان تجاویز میں مدارس کے فاضل افراد کے لئے علوم عصریہ کی درس گاہ اور انگریزی گریجوایٹس کے لئے علوم دینیہ کے نصاب کی تعلیم دینے والا علیحدہ ادارہ قائم کرنے کی تجاویز بھی شامل تھیں۔ حضرت اشرف علی تھانوی نے عصری تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے2سالہ نصاب تجویز فرمایا تھا۔ ’’دارالعلوم ٹنڈوالٰہیار‘‘ میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم کی آمد کے موقع پر علماء نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی ملک ہونے کے ناطے اب پاکستان میں تعلیم یکساں اور نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہئے۔‘‘ ملا مسٹر کو جمع کرنے کے لئے جو کوششیں کی گئیں وہ تمام تر کوششیں برصغیر کے پچھلے ڈیڑھ سو سال کے سیاسی حالات، عدمِ استحکام، انگریزوں کے خلاف جاری جدوجہد، قیامِ پاکستان کے حالات، جنگ عظیم اوربین الاقوامی معاملات کے نتیجے میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں اور متعدد تحریکیں کماحقہ، نتائج نہ دے سکیں۔ اس کے باوجود یہ سارے تاریخی حقائق اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اکابر علماء دینی اور عصری تعلیم کی تقسیم کو قوم کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے اور اس خلیج کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگے رہے تھے۔ اس دور میں ملامسٹر کی تفریق ختم کرنے، دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنے اور نصاب تعلیم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا بیڑہ اُٹھایا گیا۔ مکمل کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقوں اور حلقوں کی معاونت حاصل ہو۔ اسی طرح تمام بڑے تعلیمی اداروں کی مشاورت اور تمام مکاتب فکر کی مشارکت بھی ہو۔ اسی طرح کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ بڑی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ کے وفود بڑے مدارس کے دورے کریں۔ یونیورسٹیوں کے پروگراموں میں مدارس کے تمام وفاقوں کے علماء اور طلبہ کو45 فیصد نمائند گی دی جائے اورمدارس کی تقاریب میں یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور اسٹوڈنٹس کو مدعو کیا جائے۔ مدارس کے طلبہ اور یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس کے مابین مخفف موضوعات پر فکری مباحثے کروائے جائیں۔ ان مباحثوں سے جہاں مکالمے اور ڈائیلاگ کی نئی راہیں کھلیں گی، وہاں دو مختلف نقطہ نظر کے حامل افراد کے مابین خلیج کو بھی پاٹا جاسکے گا اور اس سے دونوں قسم کی انتہاپسندی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

تازہ ترین