• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو حقائق کی کڑی دھوپ کا سامنا ہے۔ یہ لمحات پہلی مرتبہ نہیں آئے ،اور نہ ہی شاید آخری مرتبہ۔ لیکن یقین رکھیں اور سمجھنے میں غلطی نہ کریں کہ موجودہ صورت ِحال نہایت سنگین ہے۔ امریکہ کے نائب صدر، مائیک پنس کا بگرام بیس سے دیا گیا بیان ٹرمپ انتظامیہ کے موقف کا اعادہ ہے۔ ڈو مور، نہیں تو خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن ایک گیم پلان رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس روابط کے باوجود یہ پلان تبدیل نہیں ہوگا۔ اس کی اپنی ایک ڈیڈلائن ہوسکتی ہے یا پھر ایک مرحلے کے بعد واشنگٹن روابط ختم کرتے ہوئے افغان سرحد کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں یک طرفہ کارروائی کر گزرے گا۔ پاکستان کے باخبر حلقے جانتے ہیں کہ اسلام آباد کا امریکی وارننگز کو نظرانداز کرنا ڈیڈلائن تھی، جوکہ گزر چکی۔ اُنہیں یقین ہے کہ اب اس گیم پلان کا عملی حصہ شروع ہوا چاہتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کو دی گئی دھمکیاں اور پاکستان کی اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کی گئی کارروائی کی برائے نام تعریف اسی جائزے کا ثبوت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر چار ہفتوں بعد واشنگٹن کی اسلام آباد کو دی جانے والی تنبیہ مزید دھمکی آمیز ہوتی جارہی ہے۔ ہر مرتبہ ماضی کی نسبت لہجے کی گھن گرج میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔ نائب صدر، پنس کا دھمکی آمیز بیان پاکستان کو نوٹس دینے کے مترادف تھا (اور ملٹری بیس پر موجود باوردی افسران نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا)۔
یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ اسی پس منظر میں آرمی چیف، جنرل قمر باجوہ انٹیلی جنس افسران کے ہمراہ سینیٹ کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کے لئے آئے تھے۔ واشنگٹن کے ساتھ خراب ہوتے ہوئے تعلقات اور ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے اندر کارروائی کے اندیشے کے علاوہ دیگر تزویراتی ماحول میں تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی کہ اس غیرمعمولی پیش رفت کی ضرورت پڑتی۔ فوجی ہائی کمان کا سویلین سیٹ اپ کی طرف رجوع کرنے کا مقصد افق پر منڈلانے والے واضح خطرے پر بحث کا آغاز کرنا تھا۔
چنانچہ اصل ایشو یہ نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کیا کرنے جارہی ہے، بلکہ یہ کہ اسلام آباد اس سے نمٹنے کے لئے کیا کرسکتا ہے؟ واشنگٹن نے تو اپنا منصوبہ سامنے رکھ دیا ہے۔ وہ اس پر عمل کرنے جارہا ہے۔ فی الحال پاکستان نے وہی کچھ کیا ہے جو پاکستان کے سائز کا اور انہی مسائل کا شکار ایک ملک کرسکتا ہے جب اسے کسی سپرپاور کی طرف سے جارحانہ اقدام کا سامنا ہو۔ اسلام آباد نے واشنگٹن کے ساتھ سفارتی سطح پر رابطہ کیا، اپنے دوستوں سے بات کی، انتہائی جارحانہ بیانات کے باوجود اپنے چہرے پر تشویش نمایاں نہیں ہونے دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر امریکہ کو افغانستان میں اس کی ناکامی کی یاددہانی بھی کرادی۔
تاہم واشنگٹن کے دھمکی آمیز لہجے میں نرمی نہیں آئی۔ مائیک پنس کے بیان نے اس کی تصدیق کر دی۔ امریکہ اسلام آباد کو دیوارکے ساتھ لگانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ بازو مروڑ کر اپنی بات منوانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ لہٰذا آنے والے مہینوں میں اسلام آباد کو واشنگٹن کے جارحانہ رویے سے نمٹنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا پڑ ے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس آپشنز بہت محدود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک بڑی اور طاقتور ریاست ایک چھوٹی اور کمزور ریاست سے محاذآرائی پر تل جائے تو بچائو کا راستہ بہت تنگ ہوجاتا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اس شخص کو دلیل سے بات اُس وقت تک نہیں سمجھائی جاسکتی جب تک سامنے چین کے سائز کا ملک نہ کھڑا ہو یا روس یا سعودی عرب جیسے ممالک سے بزنس مفادات نہ وابستہ ہوں۔ ٹرمپ کے نزدیک دیگر تمام ممالک پر بے دریغ مکے بازی کی مشق کی جاسکتی ہے ۔
واشنگٹن کے دھمکی آمیز رویے کے سامنے پاکستان شورمچانے یا مہذب انداز میں احتجاج کرنے کا آپشن اس لئے بھی نہیں رکھتا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ جارحانہ لب و لہجے میں جو جواز پیش کررہی ہے اُس سے عالمی برادری کے کان ناآشنا نہیں ہیں۔جب واشنگٹن پاکستان کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس نے دہشت گردوں اور مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے تو دنیا میں بہت سے دھڑے اس کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ یہ سامعین باریک بینی سے کام لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ وہ پاکستان کو لگی بندھی ساکھ کا حامل سمجھتے ہیں جہاں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آئے گی۔ وہ دہشت گردی کے خلاف اس کی حالیہ پیش رفت کا ادراک نہیں کرتے ۔ نہ ہی کوئی دہشت گردی کے خلاف اس کی جانی اور مالی قربانیوں کو دیکھتا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان سے بہت دیر سے منفی خبریں آرہی تھیں۔ممکن ہے کہ اُن کے اپنے بھی کچھ خدشات ہوں۔اب وہ دیکھتے ہیں کہ واشنگٹن ان مسائل کو پاکستانی سرزمین پر حل کرنے جارہا ہے تو وہ پاکستان کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
اگرہم نے گزشتہ چند ایک برسوں کے دوران عقل سے کام لیا ہوتا تو ہم دنیا کے تاثر کو اپنے حق میں کرسکتے تھے ۔ لیکن ہم نے اُنہیں حماقتوں کی نذر کردیا ۔ ہم نے یہ انتہائی اہم وقت اپنے ذاتی اہداف کے حصول کے لئے داخلی جنگیں لڑنے میں گزار دیا ۔ چنانچہ سول ملٹری تعلقات میں تنائو آیا اور مربوط اور منظم فیصلہ سازی نہ ہوسکی ۔ اس کی وجہ سے حقیقی سیکورٹی مسائل کا ادراک کرنا اور ان کا تدارک کرنا ناممکن ہوگیا ۔ ہم میں سے کچھ بار ہا ان مسائل کی نشاندہی کرتے رہے لیکن کسی نے ان کا نوٹس نہ لیا ۔
جائے حیرت ہے کہ گزشتہ ایک برس سے یہ شواہد واضح دکھائی دینے لگے تھے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا گھیرائو کرنے پر تلی ہوئی ہے ، اس کی نظر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پر ہے ، لیکن ہمارے ہاں چوہے بلی کا کھیل جاری رہا ۔ گزشتہ مہینے اسلام آباد محاصرے میں تھا۔ ذرا تصور کریں ، یہ وہ وقت تھا جب واشنگٹن پوری کوشش سے دنیاپر ثابت کررہا تھا کہ پاکستان ایک غیر مستحکم اور شورش زدہ ملک ہے ۔ ان نازک لمحا ت میں بھی ہم حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے مذموم مقاصد میں مگن تھے ۔قادری، خادم رضوی ،شیخ رشید کے جتھوں کے ذریعے اسلام آباد میں حکومت تبدیل کرنے میں جو وقت ضائع ہوا اب ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سول ملٹری روابط میں اتنی گہری دراڑ پڑچکی ہے کہ اس کا مداوہ کرنے کی انتہائی سنجیدہ کوشش بھی شاید رنگ نہیں لاسکتی ۔ انا کے گھوڑوں پر سوار، رسہ کشی کے شوقین، ٹوئٹر کی مسابقت کے مرد میدان اب ملک کی خاطر تزویراتی امور پر کس طرح توجہ دیں گے ؟آرمی چیف اور انٹیلی جنس افسران کو سینیٹ میں دیکھ کر ملک کو سکون محسوس ہوا، لیکن اتنی گہری خلیج ایک قدم اٹھانے سے عبور نہیں ہوتی ۔
اس وقت واشنگٹن کے عزائم کا سامنا کرنے کے لئے قوم کی طرف سے بھرپور ردعمل کی ضرورت ہے ۔ لیکن جب سیاست دانوں کا تعاقب جاری ہو، اُنہیں بے توقیر کیا جاچکا ہو، اُ نہیں تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا ہو، اور جب میڈیا میں کردار کشی کا کھیل جاری ہو تو پھر یہ ردعمل کہاں سے آئے گا؟حکومت گھٹنوں کے بل گرچکی ہے ، سیاسی طبقہ جان بچانے کے لئے ادھراُدھر بھاگا پھر رہا ہے تو پھر ملک کسی ٹھوس پالیسی کی امید کس طرح کرسکتا ہے ؟واشنگٹن، دہلی اور کابل کی طر ف سے ہمیں پہلے بھی چیلنجز کا سامنا تھا لیکن جس دوران ہم دھرنوں کا کھیل کھیل رہے تھے، یہ چیلنجز ہماری سلامتی کے لئے مہیب خطرہ بن کر سامنے آچکے تھے۔ ہماری توجہ اور توانائیوں کا ارتکاز داخلی کشمکش پر تھا۔ ہماری سرحدوں پر موجود سہ فریقی گٹھ جوڑ تمام اطراف سے ہم پر گولہ باری کررہا ہے ۔ یہ صورت ِحال تبدیل نہیں ہونے جارہی۔ بلکہ اس کے بدتر ہونے کا خدشہ موجود ہے ۔ چونکہ ہم اُنہیں اُن کے ارادوں سے باز نہیں رکھ سکتے، اس لئے ہمارے پاس آپشنز بہت محدود ہیں۔ لیکن ہم اپنے داخلی معاملات کو تو کنٹرول کرنے کا آپشن رکھتے ہیں۔
کیا ہم نے سیاسی تطہیر کے نام پرکی گئی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے ؟کیا ہمیں احساس ہے کہ ان اہداف کا حصول کتنا خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوا ہے ؟مائیک پنس شاید پاکستان کے بارے میں ایسی زبان درازی کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے اگر وہ پاکستان کے ارباب ِ اختیار کو باہم دست و گریبان نہ دیکھ لیتے ۔ اور ہماری داخلی جنگ کا ہدف کیا ہے ؟ صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر چیمپئن کہلانا ؟ ٹرمپ دور میں امریکہ ایک مست ہاتھی کی طرح ہے ۔ لیکن ہم اس کے راستے سے کیوں نہیں ہٹ رہے ؟ کیا واشنگٹن کی دھمکیوں پر سوچنے کے لئے ہمارے پاس فرصت ہے؟ کیا داخلی طور پر کٹھ پتلیوں کا تماشا اب تمام ہوگا؟ کیا ان پتلیوں کو واپس پنڈورا باکس میں بند کیا جائے گا؟ کیا ہم عقل اور معقولیت سے کام لینے کی زحمت کریں گے ؟ مسئلہ ٹرمپ یا پنس کا نہیں، ہمارا ہے کہ ہم نے واشنگٹن سے کس طرح نمٹنا ہے ۔

تازہ ترین