• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ملک میں چوسنی،لاڈلا اور کلبھوشن کا ذکر عروج پر ہے۔کوئی کسی کو مارشل لاء ادوار کی چوسنی کہتا ہے تو کسی کو عدالتوں کا لاڈلا قرار دیا جاتا ہے۔مگر اس ساری صورتحال میں کلبھوشن کا ذکر کوئی نہیں کرتا ۔حیران کن طور پر ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ذکر نہ کرنے پر غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے کا سلسلہ بھی رکا ہوا ہے۔شاید یہ سارے معاملات نوازشریف کی وزارت عظمیٰ تک تھے۔آج کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کہ بھارتی جاسوس کے اہلخانہ کو کس کے کہنے پر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔قوم کے اصل بابا قائداعظم محمد علی جناح کا جنم دن بھارتی راء کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے نام کردیا گیا۔مگر ہمارے سیاستدان ہیں کہ وہ ایکدوسرے کو چوسنی اور لاڈلا پن کے سحر سے نہیں نکلنے دے رہے۔سیاستدان مختلف اداروں کا آلہ کار بن کر اپنے آپ کو خود کمزور کرتے ہیں اور جب کوئی دوسرا فائدہ لے جاتا ہے تو پھر ہاتھ مسلتے رہ جاتے ہیں۔تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے ،مگر عمران خان نے جو روایا ت متعارف کرائی ہیں کسی بھی صورت میں ان کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایسی مضبوط سیاسی و اخلاقی روایات متعارف کراتے ،جن سے سیاسی نظام میں ٹھہراؤ اور برداشت پیدا ہوتا مگر بدقسمتی سے عدم برداشت اور آلہ کار بننے کی فضا کو تقویت دی گئی۔
مجھے یاد ہے کہ کلبھوشن یادیو کو جب گرفتار کیا گیا تو انٹیلی جنس ادارے اسے ہماری بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے۔پورے میڈیا میں اس گرفتاری کا بڑا چرچا تھا۔اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف پر بڑی تنقید کی گئی کہ انہوں نے اس گرفتاری کے حوالے سے شدید ردعمل نہیں دیا۔نوازشریف کی خاموشی کو غداری اور ملک دشمنی قرار دیا جارہا تھا۔مگر شاید نوازشریف کچھ سوچ کر خاموش ہونگے۔جس کا اظہار وہ مستقبل میں کبھی نہ کبھی کر ہی دیں گے۔اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اچانک لاہور تشریف لے آئے۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔جہاز میں سوار وفد کے دیگر ارکان کو علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے وی آئی پی لانج میں بٹھا کر مہمان نوازی کی گئی۔مگر بھارتی وزیراعظم کی رخصتی کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک قیامت صغریٰ برپا کردی گئی۔بھارت بیشک ہمارا روایتی حریف ہے مگر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بھی کہلاتا ہے۔جنوبی ایشیاء میں بھارت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگر نواز شریف نے اس ملک کے پردھان منتری اور اس کے وفد کو غیر معمولی پروٹوکول دے دیا تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے تھی۔مگر چونکہ یہ سب کچھ ایک نہتا سویلین وزیراعظم کررہا تھا ،اس لئے ہمارے میڈیا اور اداروں کو شدید اعتراض تھا۔اسی طرح بھارت کے مشہور بزنس مین ساجن جندل نے مری میں نوازشریف سے ملاقات کی۔یہ ملاقات اداروں کی خواہش پر کی گئی تھی۔ملاقات کا مقصد تھا کہ نوازشریف بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کروا سکیں۔مگر ملاقات کے بعد پھر ایک پروپیگنڈا کیا گیا کہ نوازشریف نے پاکستان کے راز مودی کے دوست کو دے دئیے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ نوازشریف کیوں خاموش رہے مگر کچھ خیال کرنا چاہئے تھا کہ ایسی روایات متعارف نہ کرائیں کہ کوئی ان پر اعتماد نہ کرے۔ایک شخص آپ کی خواہش پر دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی کوشش کرتا ہے اور پھر اسے غدار بنا دیا جاتا ہے اور وہ انسان بھی ایسا پتھر کا بنا ہے کہ اپنے دفاع میں آج تک کچھ نہیں بولا۔مجھے اس دن سے ڈر لگتا ہے،خوف آتا ہے جس دن نوازشریف بولنا شروع کریں گے۔جس دن نوازشریف نے بولنا شروع کیا اس دن ہم سب خاموش ہوجائیں گے۔اس سلسلے کو بند ہونا چاہئے۔کارگل آپریشن کے بعد پرویز مشرف اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے پاس کیا التجا لے کر آئے تھے۔کاش پرویز مشرف میں اتنی اخلاقی جرات ہو کہ وہ یہ بات خود قوم کو بتا سکیں اور پھر مشرف کی درخواست کے بعد نوازشریف نے کیا کردار ادا کیا تھا۔میرے خیال سے وطن اور افواج پاکستان سے محبت کی گواہی کے لئے وہ کردار ہی کافی تھا۔مگر بار بار نوازشریف سے امتحان لیا جاتا ہے اور وہ خاموش رہتا ہے۔عین ممکن ہے کہ عمران خان صاحب درست فرماتے ہوں کہ نوازشریف ضیاالحق کی چوسنی رہے ہیں۔مگر 1992سے لے کر آج تک نوازشریف نے جس جس چوسنی کو نظر انداز کیا ہے کاش عمران خان صاحب ان چوسنیوں کے کسی ماتحت کو ہی ایسے نظر انداز کردیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔مشرف آمر کے سامنے ڈٹ جانا کوئی عام بات نہیں تھی۔آج نوازشریف کی مضبوطی مسلم لیگ ن یا حکومت نہیں ہے بلکہ سویلین بالادستی کے نظریے پر ڈٹے رہنا نوازشریف کی مضبوطی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف آج پاکستان میں جمہوریت کے متوالوں کی واحد امید ہیں۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔تو آج نوازشریف وزیراعظم نہیں ہے۔مگر کلبھوشن یادیو کے اہلخانہ سے ملاقات کس کے کہنے پر کی گئی؟ آج کسی نے کلبھوشن پر بیانات نہیں داغے۔کیا میرٹ کے سب پیمانے نوازشریف کے لئے تھے۔بانی پاکستان کی پیدائش کا دن کلبھوشن یادیو کے اہلخانہ کے نام کردیا گیا،مگر کوئی قیامت نہیں آئی۔اگر یہ فیصلہ نوازشریف نے کیا ہوتا تو آج پاکستان کا سب سے بڑا غدار کہلاتا۔کل شاید کلبھوشن یادیو کے حوالے سے اس سے بھی بڑا فیصلہ کردیا جائے مگر کوئی قیامت نہیں آئے گی۔خدارا اب اس مذاق کو بند کردیں۔کسی کی حب الوطنی کو بھارت کی نفرت سے تشریح مت کریں۔پاکستان میں بسنے والا ہر شہری ،جسے اس مٹی نے نام دیا ہے ۔وہ اس سے مخلص اور بے پناہ پیار کرتا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے حالیہ حکومت اور عسکری قیادت نے جو بھی فیصلہ کیا ہے۔ملکی مفادات اور بیرونی تناظر کو مدنظر رکھ کر کیا ہوگا۔مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ فیصلے کرنے میں معیار مختلف کیوں ہیں؟ اگر آپ وطن سے شدید محبت کرتے ہیں تو سویلین وزیراعظم بھی وطن پر مر مٹنے کا حلف اٹھا تا ہے۔اس لئے ذاتی اختلافات میں اس حد تک مت جائیں کہ پھر اپنے ہی فیصلوں کا دفاع ناممکن ہوجائے۔
مجھے قتل کرو یا دار پر کھینچو مجھ کو
میرا جرم یہ ہے کہ میں سچ بولتا ہوں

تازہ ترین