• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہنا سو فیصد درست نہیں کہ صرف ہندو انتہا پسندی تقسیم ِہند کا بنیادی سبب تھی! اَلبتہ پہلی جنگ عظیم کے بعد پروان چڑھنے والی ہندو قوم پرستی نے ہندو مسلم یکجہتی کے امکانات کو ناقابل تلافی حد تک کمزور کردیا تھا۔ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ تقسیم ہند کا نعرہ قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی کیرئیر کے ابتدائی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی آزادی اور قومی یکجہتی جیسے معاملات عملاً ان کی سیاسی ترجیحات میں سرفہرست ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم کمیونٹی کی سیاسی وسماجی تنہائی سے مجبور ہوکر ایک علیحدہ ریاست کی بنیاد رکھنے کے باوجود اِن کی خواہش تھی کہ یہاں بسنے والے ہر شہری کو بلا تخصیص نسل، قومیت اور مذہب برابر سمجھا اور ثابت کیا جائے۔
قائد کے ایک سو بیالیسوَیں یوم پیدائش پر اِن کی تقاریر کے تناظر میں یہ سوال ایک بار پھر زیر بحث آیا کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر! لبرلز اس بار بھی پاکستان کو سیکولر دیکھنے کے سہانے خواب دہراتے اور غیر لبرلز مخالفت میں دلیلیں ڈھونڈتے دکھائی دیئے۔
قائداعظم کی سیاست کے ابتدائی دور اور قیام پاکستان کے بعد ان کی ترجیحات کا مطالعہ کرنے والے کسی بھی شخص کے لئے یہ دہرانا ضروری نہیں کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ افسوس یہ کہ قائد کا خواب پورا ہونا تو دور کی بات، گزشتہ سات دہائیوں میں دھیرے دھیرے پروان چڑھتے رہنے والی انتہا پسندی بار بار پہلی جنگ عظیم کے بعد کے حالات کی شدّت سے یاد دلا رہی ہے ۔
لفظ ’ہندوتوا‘ کو پہلی بار 1923میں وِنائیک دامودَر سوَرکر (Vinayak Damodar Savarkar) نامی ایک ہندو قوم پرست نے عام کیا تھا۔ ابتدا میں فلسفہ یہ تھا کہ ہندو قوم پرستی ہندوستانی ثقافت کی بحالی سے متعلق ہے اور ہندومت اِس ثقافت کا حصہ ہے۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ شروعات میں مسلمان اس نعرے کا بنیادی ہدف نہ ہوں! لیکن سوَرکر جی کے لئے اُس وقت یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کسی بھی معاشرے میں کسی ایک زبان، قومیت یا مذہب کے نام پر اکثریت پر اثرانداز ہونا نفرت اور تقسیم کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ دو قومی نظریہ بھی بظاہر اِس فلسفے کی لپیٹ میں آجاتا ہے لیکن اِس نظریئے کے درست ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرنا اِن تاریخی حقائق کے معروضی جائزے کے بغیر ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔
خلافت کے پلیٹ فارم تلے اہم ہندو اور مسلم رہ نما ہندوستان کی خود مختاری کے معاملے پر بڑی حد تک ہم خیال رہے۔ تحریک کا زور ٹوٹتے ہی صورتحال اتنی تیزی سے خراب ہوئی کہ 1921تک انڈین نیشنل کانگرس کی قیادت میں مسلم رہ نمائوں کا تناسب جو 11فی صد تھا، 1924میں گھٹ کر صرف چار فی صد رہ گیا۔ پھر ایک سال بعد ہی کے بی ہیگڑے نامی ایک سماجی کارکن نے سوَرکر ہی کے مشورے پر راشٹریا سوایام سیوک سنگھ نامی فلاحی تنظیم کی بنیاد ڈالی جو فوراً ہی قوم پرستی کے سحر میں مبتلا ہوگئی۔ شاید اسی لئے چند ہندوستانی تجزیہ کار ’ہندوتوا‘ کو فاشسٹ نظریہ قرار دیتے ہیں۔ پھر 1989میں بھارتی جنتا پارٹی نے بھی اِس ہندوتوائیـ نظرئیے کو اپنا سیاسی مشن بنالیا اور آج یہ جماعت منتخب ہوکر ہندوستان میں برسراقتدار ہے۔ کسی دانا نے ٹھیک ہی کہا کہ اگر ہندوستان 1947میں تقسیم نہ بھی ہوتا تو آج بی جے پی اِسے تقسیم کردیتی۔ اگرچہ کانگریس کا جمہوری اور سوشلسٹ ہندوستان اب ایک دیو مالا بنتا جارہا ہے لیکن یہ المیہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ سرحد کے اِس پار انتہا پسندی کا جن، جو شاید کبھی بوتل میں بند تھا ہی نہیں، برسوں سے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔
پاکستان میں انتہا پسندی کا تانابانا اوّل قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قانون سازی کے عمل میں ابہام اور دوئم اَسّی کی دہائی میں لڑی گئی افغان جنگ سے جڑا ہے۔ اس جنگ کے دوران مجاہدین کی پیداوار میں تیزی اور تسلسل لانے کے لئے اَن گنت نرسریز قائم کی گئیں۔ البتہ ا ن میں تیار کردہ ’’پیداوار‘‘ کامیابی کے ساتھ بیرون ملک ’’بر آمد‘‘ کردی جاتی تھی لہٰذا ملک کے اندر معاملات زیادہ برے نہیں تھے۔ لیکن 2001میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز پر حملوں کے بعد خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں پر ردعمل کے طور پر انتہاپسندوں نے پاکستان کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنالیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وقتاً فوقتاً بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے لیکن 2008میں جمہوریت کی بحالی کے بعد پورا ملک بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔
دہشت کا یہ مستقل پرچار ملک بھر میں صرف فائرنگ کے واقعات، بم دھماکوں اور خود کش حملوں تک محدود نہیں رہا۔ فرقہ وارانہ خیالات کو دوسرے پر مسلط کرنے کی بار بار رسمی اور غیر رسمی جدو جہد، آزاد خیالی کے تصورات پر مستقل نکتہ چینی، آزادی اظہار، حقوق نسواں اور بنیادی حقوق کے فلسفوں پر لعن طعن، شہریوں کے رہن سہن اور عقائد پر عدم اطمینان کا غیر ضروری اور متواتر اظہار، گلی، محلوں اور دفتروں میں یا تقریبات کے دوران تمام رویوں سے دور رہنے والوں پرغیراخلاقی جملے بازی اور تنقید کا تسلسل انتہا پسند ماحول سازی میں فعال کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسی طرح عام گفتگو یا رسمی تقاریر و تحریر میں دہشت گردی کے مقاصد کا بلاواسطہ پرچار، جملوں کی الٹ پھیر سے انتہا پسندی کی حمایت کا تواتر سے اظہار اور سب سے بڑھ کر مخالفین پر توہین مذہب کا الزام لگا کر یا اُنہیں اِس الزام کے خوف میں مبتلا رکھ کر اپنے نظریات کی بالادستی قائم کرنے کے رجحانات پہلے سے پسے ہوئے عوام کے لئے دہشت کا مستقل سبب بنے رہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم چند بلاگزر پر ملتے جلتے الزامات کا معاملہ عرصے تک زیر بحث رہا۔ ان میں سے کچھ کی گمشدگی بھی معمہ بنی رہی۔ بلاگرز کے خلاف یہ مہم اس قدر منظم تھی کہ کچھ عوامی حلقوں میں اِن بلاگزر کو سچ مچ مجرم سمجھا جانے لگا تھا۔ المیہ یہ کہ نیوز میڈیا سے منسلک چند غیر ذمہ دار اینکرز اس مہم کے دوران اِن بلاگرز کو مجرم بنا کر پیش کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے۔ البتہ ایف آئی اے کی جانب سے پانچ بلاگرز کے خلاف الزامات پر ایک تازہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تفتیش میں اِن بلاگرز پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا! اِس نئی پیش رفت پر کیا اَب یہ سوال نہیں اُٹھتا کہ شریعت اور قانون کے مطابق جھوٹا الزام لگانے والوں کا کیا انجام ہونا چاہئے؟ یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ ریاست ان معاملات میں ہر بار خاموش تماشائی کیوں بنی رہی!
رہا سوال یہ کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے، تو یہ طے ہے کہ قائد ایسا پاکستان ہرگز نہیں چاہتے تھے جہاں جھوٹا الزام لگانے والا محفوظ اور سرخرو رہے اور کوئی بے گناہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا دنیا بھر میں در بدر ہوتا پھرے، جہاں غیر مسلموں کیلئے مخصوص نشستیں اور اصطلاحات مقرر کی گئی ہوں، جہاں کسی سیاست دان یا افسر کے تحفظ کیلئےعوام سے انکے راستے کا حق چھین لیا جائے، جہاں ایک طرف منتخب نمائندے قومی دولت لوٹ کر ولایت منتقل کردیں اور دوسری طرف غیر منتخب عناصر شہریوں کو ہراساں کرنیوالوں کو شاباشی دیتے پھریں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جہاں کوئی اپنی تمام تر ایمانداری کے باوجود اور کوئی اپنے عقائد کے سبب خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہو وہ معاشرہ قائداعظم کا خواب کیسے ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین