• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ، اس دنیا اور اس دنیا کے تصور کے حوالے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ قرآن پاک میں تسخیر کائنات پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ انسان کو عقلِ سلیم استعمال کرکے زمین و آسمان میں چھپے رازوں کو تلاش کرنے اور کائنات میں پھیلے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دنیا اصلی بھی ہے اور خالص بھی، اور اس میں سرانجام دیئے جانیوالے اعمال کی زیادہ اہمیت ہے۔ اگرآخرت کی فکر اعمال سے مشروط کر لی جائے تو ترقی کی طرف رستہ کھل جاتا ہے لیکن یہاں آخرت کی فکر صرف ذکر تک محدود ہے۔ آج کی تمام تر ترقی ان اقوام اور افراد کے سر ہے جنہوں نے اپنی بھرپور توجہ تخلیقی کاموں پر صرف کی، تجربات کی بھٹی سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور آخر کار زمین و آسمان سے ہم کلام ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جب ہزاروں ٹن وزنی جہاز زمین سے اڑتا ہے تو وہ کششِ ثقل کے تمام قوانین کو اپنی عقل سے کنٹرول کرتا ہوا، ہوا میں گھنٹوں تیرتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ میں جانے والوں اور وہاں سے ایک نئی دنیا تلاش کرنیوالوں کا بھی یہی عالم ہے۔ آج کے انسان نے بہت سے سیاروں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ زندگی کی بے شمار نعمتوں سے ہمارے گھر، دفاتر، گلی کوچے اور بازار بھرے پڑے ہیں۔ ہماری نئی نسل جو کمپیوٹر دور کی پیداوار ہے، ذہانت اور فطانت میں دنیا کے دیگر بچوں کی طرح ہے بلکہ ان نوجوانوں نے کئی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیکر اپنی انفرادیت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے لیکن بات پھر وہیں جا بیٹھتی ہے کہ کسی بڑی ایجاد پر ہمارا نام کیوں نہیں؟ ہمارا تذکرہ کیوں نہیں؟ اس کا جواب ہمیں دوسروں سے پوچھنے کی بجائے خود سے پوچھنا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ جس طرح میں نے پہلے عرض کیا کہ ہمارے ہاں جو تعلیم دی جاتی ہے اسکے مطابق ہمارے ذہین ترین بچے بھی درست ٹریک سے ہٹ جاتے ہیں جب کہ اکثریت زندگی کو روٹین کے مطابق گزارنا پسند کرتی ہے اور یہ کلیہ تمام دنیا میں رائج ہے۔ پھر زبان کا بھی اس میں بہت بڑا کردار ہے۔ بچے علم حاصل کرنیکی بجائے رٹا لگانے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتے ہیں۔ کسی نظریے سے ہم آہنگی کی بجائے، ان کی تمام جدوجہد زبان کی باریکیوں اور اصلاح میں خرچ ہو جاتی ہے۔ اگر تمام سائنسی اور دیگر علوم کا قومی زبان میں ترجمہ کروا دیا جائے تو بچوں کے لئے ان نظریات کی اساس تک پہنچنا آسان ہو گا اور پھر وہ اس سے آگے کا سفر طے کریں گے، اگلی منزل کا تعین کریں گے، ان کا ذہن تجربے اور تخلیق کی طرف بڑھے گا۔ مولانا روم اور اقبال کے ہاں واضح طور پر بحث موجود ہے کہ جنت، دوزخ انسان کے ذہن سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں مجھے رابعہ بصری کی یاد آتی ہے جن کے افکار اور اعمال نے پہلی بار تصوف میں محبت کو خاص درجہ دیا۔ ان کے نزدیک عبادت دراصل محبت کا نام ہے۔ یہ خشک وظیفہ نہیں ہے بلکہ اپنے محبوبِ حقیقی سے وہ مکالمہ ہے جس میں انسان اپنے ربّ کے روبرو اس کی محبت اور عبودیت کا اقرار کرتا ہے۔ اسکی عبادت کسی نفع اور نقصان سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ صرف محبوب کے قرب اور خوشنودی، جو آگے چل کر وصل میں تبدیل ہو جاتی ہے، کے لئے ہوتی ہے۔ ایک دن حضرت رابعہ بصری مصر کے بازار میں ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی کا پیالہ لے کر بڑے غصے کے عالم میں ایک طرف جا رہی تھیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر ان کی اس کیفیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے جا رہی ہوں تا کہ لوگ جنت کی خواہش میں خدا کی عبادت نہ کریں اور اس پانی سے دوزخ کی آگ ٹھنڈی کرنے جا رہی ہوں تاکہ لوگ دوزخ کے عذاب کے خوف سے بچنے کیلئے خدا کی عبادت نہ کریں بلکہ وہ اسے اسلئے چاہئیں کہ وہ چاہنے کے لائق ہے، وہ ہمارا محبوب ہے، ہم اس کے بغیر کچھ نہیں۔ جب تک اس کا وصل حاصل نہیں ہوتا، انسان صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہوتا۔ اسی بات کو ہمارے دیگر صوفیاء نے آگے بڑھایا اور اس دنیا میں خدمتِ خلق کو زیادہ اہم قرار دیا۔ انکے نزدیک عبادت تب تک قبول نہیں ہوتی جب تک انسان خدا کی مخلوقات کا خیال نہ کرے اور ان کے دکھوں کا مداوا نہ کرے۔ اسلام بھی خدمتِ خلق کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور حقوق العباد میں معافی تک کا معاملہ، انسانوں تک رکھا گیا ہے۔ جب خدمتِ خلق کی بات کی جائے تو پھر انسانوں کے لئے خوراک، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک عام سا تجربہ ہے جب انسان کا دماغ خیر کے تصور سے آباد ہو، وہ جنت میں ہے، اور جب اس پر شر غلبہ حاصل کر لے وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ اسی سے اطمینان اور پشیمانی (Guilt) کے جذبات بھی جڑے ہوتے ہیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ انسان کو کائنات کی تسخیر کی طرف بھی راغب کرتا ہے تا کہ وہ انسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ خوشیاں تلاش کر سکے۔ لاہور میں25دسمبر کو ایک بہت بڑے کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کی افتتاحی تقریب کے دوران جب وزیراعلیٰ پنجاب نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے یہ اشعار پڑھے جن کے مطابق عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں نہ میسر ہوں تو وہ بغاوت کی طرف سفر شروع کرتا ہے، اور معاشرہ خونی انقلاب کی طرف۔ قومیں دھرنوں، ہڑتالوں اور احتجاجوں میں اُلجھ کر رہ جاتی ہیں اور نسلِ نو جہانِ تازہ کے تازہ افکار سے استفادہ کرنے کی بجائے، مایوسی اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہے کیوں کہ دیانت اور میرٹ کی عدم موجودگی میں غیر یقینی صورت حال جنم لیتی ہے جو پورے ماحول کو افسردہ کر دیتی ہے اور لوگوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ مفقود ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے جزا و سزا اور روزِ محشر کو اس دنیا کے ساتھ منسلک کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے تب ہی ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ تمام جہان اور تمام مخلوقات ایک ہستی کے تخلیق کردہ ہیں اس لئے تفریق بے معنی ہے۔ ہر عمل اپنے ساتھ سزا اور جزا لے کر آتا ہے۔ بقول فیض احمد فیض:
کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہو گا
یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہو گا

تازہ ترین