• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے مجھے اخبارات کے بڑے بڑے اشتہارات سے پتا چلا ہے کہ پنجاب قائداعظم کا ہو گیا ہے میں خوشی سے باغ باغ ہو گیا ہوں۔ اگر اخبارات میں اشتہارات نہ دیئے جاتے تو مجھے کبھی بھی اتنی عظیم اورتاریخی تبدیلی کاپتا نہ چلتا حالانکہ میں پنجاب میںرہتا ہوں۔ رہتا ہی نہیں چلتاپھرتا اور سفر بھی کرتا رہتا ہوں۔ بھلا ہو پنجاب کے وزیراعلیٰ بروزن خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کا کہ انہوں نے پنجاب کو قائداعظم کا پنجاب بنا دیاہے یعنی پنجاب کو قائداعظم کے تصورات کی تصویر بنا دیا ہے ورنہ پاکستان گزشتہ ستر سالوں سے قائداعظم کے تصور پاکستان کا پیچھا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو تو یہ تصور سمجھ نہیں آتا تھا اور کچھ اس کی عملی تعبیرکے حوالے سے مایوس تھے۔ اب جسے قائداعظم کا تصور پاکستان دیکھنا ہو وہ پنجاب کی سیرکرے، شہروں، قصبوں اور دیہات میں جائے تووہ انشا اللہ قائداعظم سےبھی بدظن ہوجائے گا اور آئندہ ان کے تصور کی تکمیل کی آرزو سے بھی تائب ہو جائے گا۔ کتابی آدمی ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ تصورات کتابوں ہی میںحسین و جمیل اورپرشکوہ لگتے ہیں۔ اگر انہیں شرمندہ تعبیر کردیا جائے تو نہ صرف ان کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے بلکہ ان سے وابستہ خواب بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ خواب، خواب ہی رہیں تو ان کا جادو اور حسن قائم رہتا ہے۔ اگر خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا جائے تو ان کا وہی حال ہوتا ہے جو آج قائداعظم کا پنجاب دیکھنے والوں کا ہوگا۔ ویسے قائداعظم کا خواب تو پورے ملک کے لئے تھا لیکن یہ کریڈٹ صرف میاں شہباز شریف کو جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کےبڑے صوبے کو قائداعظم کے تصور کےسانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اب وہ ماشااللہ وزیراعظم نامزد ہوچکے ہیں تو امید نے جنم لیا ہے کہ وہ پنجاب کی مانند پورے ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنا کر دم لیں گے۔ یعنی پورے ملک میں کچھ انڈر پاسز، فلائی اوورز بنیںگے، میٹروبس چلے گی جس کی سب سڈی پر صوبوں کے خزانوںکا اس قدر حصہ صرف ہوگا کہ تعلیم و صحت کے لئے کچھ نہیں بچے گا اور اسی طرح اورنج ٹرین چلے گی جس میں بیس کروڑ عوام میں سے بیس تیس لاکھ ماہانہ سفر کریں گے لیکن خزانے خالی کرجائیں گے۔ اگر کسی نے آڈٹ یااحتساب کی بات کی تو ریکارڈ کو آگ بھی لگ سکتی ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مجھے اس ایکسرسائز کے مکمل ہونے میں صرف اتنا تامل ہے کہ میاں شہباز شریف کو پنجاب میں تصور ِ قائداعظم کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی تیرہ چودہ برس لگے۔ گویا پاکستان کو بھی قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے انہیں وزارت ِ عظمیٰ کی تین ٹرمز یعنی تقریباً پندرہ برس درکار ہوں گے۔کوئی بات نہیں جہاں قوم نے قائداعظم کے تصور کی تکمیل کے لئے ستر برس انتظار کیا ہے پندرہ برس اور انتظار کرلے گی۔ میرا حسن ظن ہے کہ وہ انشااللہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں گے کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق میاں شہباز شریف بنیادی طورپر انقلابی روح کے مالک ہیں۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ کی گئی، غریبوں کے مسائل حل نہ کئے گئے تو یہاں خونی انقلاب آئے گا۔ غربا محلات کو جلا کر راکھ کردیں گے اور انقلاب فرانس کی مانند جگہ جگہ پھانسیوں کے گھاٹ نظر آئیں گے۔ دوسری طرف عوام روکھی سوکھی کھا کر سستی اور کاہلی کی نیند سو رہے ہیں اور میاں شہبازشریف کی پیش گوئی کو سچا ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کررہے۔ خدا جانے کمی کہاں ہے۔ بہرحال ہمیں اس انقلاب کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے جس کا واویلا میاں صاحب تین دہائیوں سے ’’مچا‘‘ رہےہیں۔ اسی طرح کے انقلاب کی پیش گوئی قیام پاکستان کےبعد پنجاب کابینہ کے ایک کمیونسٹ مسلم لیگی وزیر میاں افتخار الدین کیاکرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہر روز برطانیہ سے درآمد شدہ آفٹر شیو لوشن کی پوری بوتل چہرےپر انڈیل کر خونی انقلاب کی پیش گوئی کرنے چل کھڑے ہوتے تھے۔ خیر میاں شہباز صاحب صرف حبیب جالب کے شعر سناتےاور جوش انقلاب میں مائیک توڑتے ہیں۔ ان کی دعوت ِ انقلاب کے باوجود اگر انقلاب نہ آئے تو اس میں ان کا کیا قصور؟ قصور تو سارا محروم اور غریب عوام کا ہے۔
میری میاں شہباز شریف سے ملاقات کوئی آٹھ نو برس پہلے ہوئی تھی جب انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر نیا نیا سیکھا تھا ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وہ دوسری باروزیرعلیٰ بنے تھے اور میں نے عرض کیا تھا کہ جس افکار ِ تازہ کاخواب آپ دیکھ رہے ہیں وہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ اسکول ایجوکیشن کو مضبوط بنایئے اور پھراعلیٰ تعلیم پر بھرپور توجہ دیجئے کیونکہ تعلیم کا بیڑہ غرض ہو چکا ہے۔ موجودہ یونیورسٹیوں کا معیار عالمی سطح کےمطابق بنایئے اور کوشش کرکے یو اےای، قطر اور ملائیشیا کی مانند کچھ امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں کے کیمپس یہاں بنوا دیجئے۔ عمارتیں آپ بنادیں، تعلیم وہ دیں اور ڈگری بھی وہ دیں۔ عالمی سطح کی ان یونیورسٹیوں میں جو غریب بچے میرٹ کےمطابق داخلہ لینے میںکامیاب ہوں ان کا خرچ حکومتی خزانے سے اداکریں۔ اس طرح پنجاب کے بچوں کویہاں رہتے ہوئے غیرملکی یونیورسٹیوں کی تعلیم اورڈگریاں ملیں گی اور انہی سے افکار ِ تازہ جنم لیںگے۔ میری بات سمجھنے کی بجائے میا ںصاحب سنگ وخشت کی دنیا آبادکرنے چل نکلے اور افکار ِ تازہ کاجہاں آباد نہ ہوسکا۔ بدقسمتی سے ہماری قیادت کوہیومن ریسورسز یعنی انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کا نہ وژن ہے نہ احساس۔ نتیجے کے طور پر ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سنگ و خشت کاجہاں آباد کرنے کے لئے صحت اور تعلیم کےبجٹ سے وسائل نکال کر سڑکوں ، پلوں،میٹرو بس اور سستی روٹی جیسے منصوبوں پر صرف ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ آج اسپتالوں کے فرش پر لیٹے اور ایک ہی بستر پر پڑے کئی کئی مریضوں کو نہ دوائی ملتی ہے اور نہ ٹیسٹوں کی سہولت حاصل ہے۔
یہاں تک لکھ چکاہوں تو ایک ہمدم دیرینہ کا فون آیا ہے، کہتے ہیں کہ قائداعظم تو قومی خزانے سے ایک ایک پائی سوچ سمجھ کر استعمال کرتے تھے جبکہ ہمارے حکمران قومی خزانے کا بےدریغ استعمال کرتے ہیں اور اربوں روپے اپنی پبلسٹی پر صرف کر رہے ہیں حالانکہ اس رقم سے ہزاروں اسکولوں کو اساتذہ فراہم کئے جاسکتے ہیں اورلاکھوں مریضوں کو دوائی مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس صوبے کی پچاس فیصد آبادی کو صاف پانی نہ ملتا ہو، جس صوبے کے کروڑ بچے اسکولوں سےباہر ہوں، جس صوبے کے ہزاروں اسکول استادوں سے محروم ہوں، ان میں بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں اوربچے درختوں کے نیچے پڑھنے پر مجبور ہوں، جس صوبے میں اسپتالوں میں غریب شہری کو علاج معالجے کی سہولت میسر نہ ہو، بیروزگاری اور مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہو، انتظامیہ اتنی کرپٹ ہو کہ کوئی جائز کام رشوت کے بغیر نہ ہوتا ہو، ہر طرف لاقانونیت اور بے انصافی کا راج ہو، سیاست جاگیرداروں اور رئوسا کی لونڈی بن چکی ہو، بے اثر لوگ حوالاتوں اور پولیس مقابلوں میں مارے جارہے ہوں آپ ایسے صوبے کو قائداعظم کا پنجاب کہیں گے یا شہباز شریف کا پنجاب؟؟

تازہ ترین