• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال پچیس دسمبر کی عام تعطیل کے روز نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں قائداعظم کرکٹ ٹرافی کے فائنل میچ کا آخری دن تھا۔ واپڈا اور سوئی نادرن کی ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کی قومی چیمپیئن بننے کے لئے مدِمقابل تھیں۔ مشہور کھلاڑی حصہ لے رہے تھے۔ حیرت کی بات کہ نیشنل اسٹیڈیم تماشائیوں سے خالی تھا۔ مجھے ٹیلی وژن پر پاکستان کے سب سے بڑے اسٹیڈیم کو ویران دیکھ کر ایک انگریز صحافی کی دی گئی خبر یاد آ گئی۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان بین الاقوامی میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے اُس نے لکھا تھا۔ ’’راولپنڈی میں کنکریٹ کے گرد آلود پیالے کے اندر میچ تین تماشائیوں اور ایک کتے کی موجودگی میں شروع ہوا۔‘‘
جس ملک کے عوام میں یہ کھیل مقبول ہو وہاں گرائونڈ میں تماشائی میچ دیکھنے کیوں نہیں آتے؟ اِس مرض کی تشخیص عمران خان نے 1980 کی دہائی میں کی تھی۔ عمران خان، انگلستان سے واپس آئے تو وہ کائونٹی کرکٹ میں علاقائی ٹیموں کے ساتھ پرستاروں کی جذباتی وابستگی دیکھ چکے تھے۔ اُنہوں نے کرکٹ بورڈ سے مطالبہ کیا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے مقابلے صرف علاقائی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
اُس وقت زیادہ تر مقابلے قومیائے گئے بنک اور دوسرے قومی اداروں کے درمیان ہوتے تھے۔ پہلے پہل تو پی آئی اے، نیشنل بنک، ریلویز اور پاک پی ڈبلیو ڈی کی ٹیم ہوا کرتی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور میں عبدالحفیظ کاردار کے مشورے پر تمام اداروں نے اپنی کرکٹ ٹیم بنائی۔ کھلاڑیوں کو باعزت روزگار تو مل گیا مگر اداروں کی ٹیمیں عوامی حمایت سے محروم رہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ دیکھنے کے لئے بہت کم لوگ اسٹیڈیم میں آتے تھے۔ یہیں وہ مسئلہ پیدا ہوا جس کا حل آج تک کرکٹ بورڈ تلاش نہیں کر سکا۔
عمران خان کے مشورے کی مخالفت ہوئی۔ سرکاری اداروں کی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو اپنے پس منظر کی وجہ سے ایک کرکٹر کے مالی مسائل کا اندازہ نہیں۔ کھلاڑی اُس وقت تک دلجمعی سے کھیل پر توجہ نہیں دے سکتا جب تک اُس کے مالی مسائل حل نہیں ہوتے۔ علاقائی کرکٹ کی ایسوسی ایشنز سیاسی بنیادوں پر اُستوار ہیں۔ وہ کرکٹ کو فروغ دینے کی بجائے جعلی کلب بنا کر ووٹ حاصل کرتی ہیں اور نمائندگی کے حق کا معاملہ عام طور پر عدالتی مقدمات میں زیرِ سماعت رہتا ہے۔ کرکٹر کے مالی مسائل ایسوسی ایشنز حل نہیں کر سکیں گی۔
یہ معاملہ آج تک سلجھ نہیں سکا۔ کرکٹ بورڈ کو اپنی آمدن کے لئے کارپوریٹ سیکٹر سے مقابلوں کی سرپرستی درکار ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی وسائل مہیا کرتی تھی۔ غالباً 2002 میں قانون بنا کر تمباکو انڈسٹری کو کھیلوں کے مقابلوں کی سرپرستی سے روک دیا گیا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کا مسئلہ گھمبیر تر ہوتا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ حال ہو گیا ہے کہ میچ چاہے علاقائی بنیادوں پر ہوں یا اداروں کے درمیان، تماشائی اسٹیڈیم میں نہیں آتے۔ خالی اسٹیڈیم عوامی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر مالی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ دوسری طرف کرکٹ بورڈ کی توجہ مالی وسائل کے حصول پر رہتی ہے۔ حالات اتنے بد تر ہو گئے ہیں کہ گزشتہ بورڈ میٹنگ کے بارے میں میڈیا پر افسوس ناک خبر آئی۔ رپورٹ کیا گیا کہ بورڈ کے ایک ممبر نے میٹنگ میں تجویز دی کہ اگر مالی سرپرستی دستیاب نہ ہو تو قائد اعظم ٹرافی کے مقابلے ہی بند کر دیئے جائیں۔ اُس ممبر کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ بورڈ فرسٹ کلاس کرکٹ کو اہمیت نہیں دیتا۔ بورڈ کے اربابِ اختیار یہ بھول رہے ہیں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کی نرسری سے ہی کھلاڑیوں کی تربیت ہوتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ٹی ٹونٹی کے مختصر دورانیے کے کھیل کے علاوہ تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں کیسے لایا جائے۔ اپنے شہر اور علاقے کے ساتھ تماشائیوں کی جذباتی وابستگی سے انکار نہیں اور اِس لحاظ سے عمران خان کی رائے اُس وقت بھی صائب تھی اور آج بھی ہے۔
ضرورت ہے کہ اچھی مارکیٹنگ سے فرسٹ کلاس کرکٹ کو مقبول بنایا جائے۔ بورڈ کی مارکیٹنگ ٹیم دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر تماشائیوں کو میدان میں لانے کے لئے ایک بھرپور حکمتِ عملی بنائے۔ دُنیا میں کھیلوں کے منتظمین طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ اسٹیڈیم میں داخلے کے ٹکٹ نمبر پر لاٹری کے ذریعے انعام دئے جاتے ہیں، مگر انعام صرف اِس صورت میں ملتا ہے کہ تماشائی اسٹیڈیم میں موجود ہو۔ بیرونِ ملک بائونڈری لائن کے ساتھ سوئمنگ پول اور ریستوران بنائے جا رہے ہیں۔ رونق پیدا کرنے کے لئے فینسی ڈریس کے مقابلے ہوتے ہیں، بہترین تماشائیوں کا انتخاب ہوتا ہے اور کھانے اور چائے کے وقفے میں میوزک پروگرام کئے جاتے ہیں۔ سائوتھ افریقہ میں اسکول کے بچوں کو بسوں میں بھر کر اسٹیڈیم لایا جاتا ہے جہاں وہ اپنی استانیوں کے زیرِنگرانی نظم و ضبط کے قرینے بھی سیکھتے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اپنی تیار کردہ اشیا کو فروغ دینے کے لئے بچوں کو تحفے دیتی ہیں۔ خو اتین کے لئے اسٹیڈیم میں علیحدہ انتظام اور حفاظت کے ساتھ لانے لیجانے کا بندوبست ہوتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کھیل کے میدان میں اِس قدر رونق ہو کہ ٹیلی وژن پر دیکھنے والے تماشائی بھی اسٹیڈیم کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ بورڈ کی مجبوری ہے کہ اداروں کو فرسٹ کلاس کرکٹ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ اِس لحاظ سے عمران خان کی علاقائی کرکٹ کی تجویز پر عمل مشکل ہے۔ مگر خان صاحب کی تجویز اسٹیڈیم کو آباد کرنے کے حوالے سے تھی۔ اُس کا مقصد کھلاڑیوں کو اداروں کی ملازمت سے محروم کرنا نہیں تھا۔ اگر دوسرے طریقے اپنا کر تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں لایا جا سکے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
ویران اسٹیڈیم کی وجہ کرکٹ بورڈ میں مارکیٹنگ کی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ مارکیٹنگ صرف پراڈکٹ بیچنے کا نام نہیں۔ کسی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ سے پہلے اُس پراڈکٹ کو خریدار کے لئے دلکش بنانا ضروری ہوتا ہے۔ تھوڑی سرمایہ کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کھیلوں کے میدانوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ تماشائیوں کے لئے نہ بیٹھنے کا مناسب انتظام، نہ سر پر سایہ، نہ پینے کا پانی اور نہ صاف ستھرے ٹوائلٹ کی سہولت۔ کرکٹ بورڈ تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں لانے کے لئے نئی حکمت عملی ترتیب دے۔ کھیل کے میدان میں خاندان بھر کے ساتھ پکنک منانے کا مناسب ماحول بنا دیاجائے تو اسٹیڈیم کی ویرانی ختم ہو جائے گی۔ مختصر سی فوڈ اسٹریٹ سے ہی لوگوں کی دلچسپی بڑھ جائے گی۔ میدانوں کی رونق بڑھے گی تو ٹیلی وژن پر ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ کارپوریٹ سیکٹر بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ابھی تک تو نجم سیٹھی کی سربراہی میں کرکٹ بورڈ دبئی کی رونق، چکا چوند کرنے والی روشنیاں اور رنگ و بو کے سیلاب کی دلچسپیوں میں کھویا ہوا ہے۔ اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو پاکستان کی بے رنگ اور بے نور، فرسٹ کلاس کرکٹ میں بہتری نہیں آئے گی۔

تازہ ترین