• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت نے کھلم کھلا فوجی مداخلت کی تھی، مشرقی پاکستان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے بھارتی لیفٹیننٹ جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور تقریباً چالیس ہزار فوجی بھارت کے قیدی بنے تھے۔ یہ امر آج بھی غور طلب ہے کہ اتنا بڑا سانحہ پیش کیوں آیا تھا۔ قومی سطح پر اس حوالے سے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تحقیقی کام نہیں ہوا، البتہ بعض کتابیں صورتِ حال کی ٹھیک ٹھیک وضاحت کرتی ہیں۔ ان میں بریگیڈیئر صدیق سالک (شہید) کی مایہ ناز تصنیف ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ واقعات کی صحیح تصویر کھینچتی اور غوروخوض کے لیے مواد بھی فراہم کرتی ہے۔ اس میں سوچ بچار کے دو پہلو ہمارے لیے آج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک عام انتخابات کا انعقاد اَور دوسرا مینڈیٹ کی اہمیت کا عدم احساس۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں نے نومبر 1969ء میں لیگل فریم آرڈر (ایل ایف او) کا اعلان کیا جس میں نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات اکتوبر 1970ء میں ہونا قرار پائے تھے۔ دستور ساز اسمبلی پر 120روز کے اندر آئین تیار کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد وہ ازخود تحلیل ہو جائے گی۔ ایل ایف او میں ریاست کی سالمیت اور وحدت کے بنیادی تقاضے درج کرتے ہوئے انتخابی مہم میں حصہ لینے والے مارشل لا کے تحت اس امر کے پابند کیے گئے تھے کہ وہ اُن کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکیں گے۔ ایل ایف او کے اجرا کے موقع پر جنرل یحییٰ خاں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اَور ایڈیٹر صاحبان نے بڑے بڑے سوالات اُٹھائے۔ مجھے یاد ہے کہ روزنامہ جنگ کے بالغ نظر ایڈیٹر جناب میر خلیل نے 120دنوں کی پابندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خطرناک نتائج کا حامل قرار دیا تھا۔
یکم جنوری 1970ء سے انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر جھپٹنے اور ہر طرح کے تعصبات پھیلانے کی اجازت دے دی گئی۔ ملک میں مارشل لا نافذ تھا،مگر حکومت نام کا کوئی ادارہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس مادر پدر آزادی کا پہلا لرزہ خیز مظاہرہ ڈھاکے میں ہوا۔ جماعت اسلامی پاکستان نے 18جنوری کو پلٹن میدان میں انتخابی جلسۂ عام کا اعلان کیا جس سے خطاب کرنے کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک شام پہلے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ اگلے روز جلسۂ عام شروع ہونے سے پہلے ہی عوامی لیگ اور مولانا بھاشانی کی عوامی نیشنل پارٹی کے غنڈوں نے اسٹیج پر قبضہ کر لیا اور آنے والے حاضرین پر لاٹھیاں برسائیں اور اُن پر تیز دھار اسلحے سے حملے کیے۔ پلٹن میدان میں خون بہتا رہا اور پولیس اور فوج تماشائی بنی رہی۔ مولانا جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے، تو ڈھاکہ یونیورسٹی کے قریب طلبہ نے اُنہیں گھیر لیا اور واپس چلے جانے کے لیے کہا کہ پلٹن میدان تو میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ مولانا بھاری دل سے واپس چلے گئے۔ جماعت اسلامی کے جلسۂ عام پر شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت کی یلغار سے پورے مشرقی پاکستان میں یہ پیغام چلا گیا کہ عوامی لیگ کے مدِ مقابل جو بھی انتخابی مہم چلے گی، اس کا حشر یہی ہو گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کے جلسوں میں رونق بڑھتی گئی، کیونکہ سول انتظامیہ شیخ صاحب کا ہر حکم بجا لا رہی تھی اور اُنہی کی ہدایات پر کاروبارِ حکومت چلائے جا رہے تھے۔ایڈمرل احسن اور لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خاں جو مشرقی پاکستان میں مارشل لا حکومت کے نمائندے تھے، اُنہوں نے جنرل یحییٰ خاں سے اجازت چاہی کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو قانون کی حد میں رکھا جائے، ان کی دست درازیوں پر گرفت کی جائے اور اُنہیں احساس دلایا جائے کہ ملک میں مارشل لا نافذ ہے، مگر اُنہوں نے ایسا کرنے سے منع کیا اور وہ شیخ صاحب کا ہر مطالبہ تسلیم کرتے گئے۔ بعد میں سمندری طوفان آ جانے سے انتخابات دو مہینوں کے لیے ملتوی ہو گئے، تو انہیں بنگلہ قومیت کو پروان چڑھانے، اپنی سیاسی طاقت منظم کرنے اور مغربی پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے کا مزید موقع مل گیا۔ اس دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مشرقی پاکستان میں بہت کم دلچسپی لے رہی ہیں۔ انتخابات کے لیے جب ٹکٹ جاری کیے گئے، تو پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا۔عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں چند افراد کو ٹکٹ جاری کیے جن میں پیر صاحب پگاڑا اَور جناب حاکم علی زرداری بھی شامل تھے۔ عملی طور پر دونوں بازو سیاسی اعتبار سے تقسیم ہو چکے تھے اور مغربی پاکستان میں سوشلزم اور مشرقی پاکستان میں بنگلہ قومیت کے نعرے لگ رہے تھے۔اسٹیبلشمنٹ مغربی پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ میں لگی رہی۔ سید مودودی نے اسلامی قوتوں کو جمع کر کے مئی کے مہینے میں ’یومِ شوکتِ اسلام‘ لاہور میں منایا۔ وہ ایک پُرشکوہ مظاہرہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے دینی جماعتوں کو تقسیم کرنے کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک اجتماع کا اہتمام کیا جس میں جمعیت علمائے پاکستان وجود میں آئی۔ عام انتخابات میں دینی جماعتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل کھڑی تھیںجبکہ قیوم لیگ کو فوج کی حمایت حاصل رہی۔ انتخابات سے بہت پہلے معاشرہ نظریاتی طور پر تقسیم ہو چکا تھا۔ مغربی پاکستان میں نوجوانوں کا بڑا طبقہ بھٹو صاحب کا شیدائی تھا جبکہ نظریاتی تقسیم بیوروکریسی میں بھی سرایت کر چکی تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں عوام اور بیوروکریسی کا بڑ احصہ بنگلہ قومیت کے زیرِ اثر آ گیا تھا۔ یہ تقسیم انتخابات کی شفافیت پر بری طرح اثرانداز ہوئی۔ میں نے ستمبر 1970ء میں پورے مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اَور واپسی پر جنرل یحییٰ خاں سے ملاقات کی۔ ون ٹو ون ملاقات میں اُنہیں بتایا کہ شیخ مجیب الرحمٰن انتخابات میں نوے فی صد نشستیں جیت سکتے ہیں، کیونکہ پوری بیوروکریسی اُن کے ساتھ ہے اور اُنہی کا حکم چل رہا ہے۔ وہ میری بات بڑے غور اور پورے اطمینان سے سنتے رہے اور کہنے لگے وہاں ہمارے آدمی بھی ہوں گے جو حالات کو ایک حد سے آگے خراب نہیں ہونے دیں گے۔
دسمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے جن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ حکومت کی طرف سے نہیں، نظریاتی طور پر تقسیم کی طرف سے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اپنے مسلح ونگ کے ذریعے مخالف سیاسی جماعتوں کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ دو قومی نشستوں کے سوا تمام نشستیں عوامی لیگ نے جیت لیں، تاہم سیاسی فسطایت کے باوجود جماعت اسلامی نے لاکھوں ووٹ حاصل کیے۔ مغربی پاکستان میں انتخابی عملے نے سولہ سال کے نوجوانوں کو بھی جو پیپلز پارٹی کے حامی تھے، ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جبکہ ووٹ ڈالنے کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ خواتین کے شناختی کارڈ نہیں تھے، اس لیے اُنہوں نے بے حساب جعلی ووٹ بھگتائے۔ میں سہ پہر کے وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے اُن کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ وہ برآمدے میں کھڑے تھے اور اُن کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے ہمیں دونوں بازوؤں میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور مجھے پاکستان جعلی انتخابات اور علاقائی جماعتوں کے ذریعے تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

تازہ ترین