• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوش نصیب مساجد انتظامیہ کے بارے سورۃ توبہ کی آیت نمبر 18میں ہے کہ ’’اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لائے‘‘۔ حدیث بھی ان کو اللہ کے خاص بندے قرار دیتی ہے‘‘ آپ ہی ہیں جو دس دس روپے اکٹھے کر کے لاکھوں اور کروڑں روپے مساجد کے لئے جمع کر لیتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی سے بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ امام وخطیب وہ ہیں۔ جن کے30پاروں کی تلاوت میں زِیر زَبر پیش کی غلطی ہم برداشت نہیں کرتے۔ دوسری طرف اکثریت کے بچے اچھے لباس، معیاری تعلیم، دودھ، دہی، پھل، سیروتفریح، ذاتی گاڑی، ادویات و دیگر بنیادی ضروریات کو ترستے ہیں۔ لیکن ان کے کام کا معیار اور ان کا ذاتی وقار دیکھیں کہ کبھی نہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ، نہ آج تک بھوک ہڑتال کی دھمکی۔ کبھی سوچیں جو سہولیات آپ کے لخت جگر کو ہیں، ان کی اولاد کو کیوں نہیں۔ لیکن کبھی ناشکرا نہیں بلکہ صابر و شاکر رہتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت مت کریں، ان کے ساتھ تکبر و غرور سے نہیں شفقت ومحبت اور ادب سے پیش آئیں۔ ان کے بیوی بچوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کو اپنے قرابت داروں میں شامل کر لیں۔ ان کی عزت نفس کبھی خود مجروح کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کی جرات ہونے دیں۔ کیونکہ جب ہمارے مذہبی پیشوا رسم شاہبازی اور طرز شاہی سے واقف ہوں گے تو’’غلام ہجوم‘‘ کو قوم میں بدلنا ممکن ہوگا ضابطہ بنائیں انتظامیہ کے علاوہ کوئی نمازی ان سے مسجد کے مسائل وانتظامات مثلاً صفائی وغیرہ کے بارے سوال نہ کرے۔ بلکہ آپ سے رجوع کرے۔ ازراہ کرم پالیسی بنائیں جس کے تحت امام وخطیب تعینات کریں، مترنم آواز، لچھے دا تقریر پر نہ جائیں، تجوید و قرات اور درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم کم از کم بی اے، انگلش اور عربی پر مہارت رکھنے والا امام اس وقت سوسائٹی کی ضرورت ہے۔ معیاری ادارے سے فاضل ہونے کے علاوہ اس کے اساتذہ کی تعلیم، اخلاق اور مزاج معلوم کریں۔ تاکہ سخت گیر مذہبی امام وخطیب کی تعیناتی سے بچ سکیں۔ آج پی ایچ ڈی علماء کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے، تھوڑی سی جستجو سے ایک قابل، ایمان دار اور حقیقی معنوں میں سلجھا ہوا خطیب مل سکتا ہے۔ تعیناتی سے پہلے پولیس رپورٹ ضرور لیں۔ اس کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے حقیقی معلومات ضرور حاصل کریں۔ کوشش کریں ان کی تنخواہیں اور مراعات 16گریڈ سے لیکر 20گریڈ کے برابر ہوں۔ اس سے سوسائٹی کا دینی معیار بلند ہوگا، یہ ریاست کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ رنگ و روغن، لائٹوں، میناروں اور دیگر بنیادی ضروریات سے بھی زیادہ مسجد کیلئے بالغ النظر خطیب ضروری ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ سے کسی نے عرض کیا کہ، آپ کی حکومت کے فلاں علاقے میں تفرقہ بازی اور شورش بڑھ رہی ہے تو آپ نے فرمایا ’’فوراً اس علاقے کے ان پڑھ اور جاہل خطباء کو معزول کر دیا جائے‘‘۔ ان کو کبھی شرعی، اخلاقی، آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہ دیں تاکہ فرقہ واریت، خارجیت، تکفیریت، لاقانونیت، بدنظمی، عصبیت پر مبنی نعرے بازی، تنگ نظری، انتہا پسندی، دہشت گردوں کی معاونت و سہولت کاری اور مذہبی جذبات نہ بھڑکا سکیں۔ تعیناتی کے وقت حلف، تحریری معاہدہ اور ہر ماہ چار چھٹیوں کی سہولت دیں۔ جب ہم اپنے بچے کو6سے 10گھنٹے کی سکول اور ٹیوشن سنٹرمیں داخل کراتے وقت جگہ جگہ سے معلومات لیتے ہیں، تو جس نے پورے علاقے کو تعلیم دینی ہے اس حوالے سے اتنی بے احتیاطی آخر کیوں؟ اور ہمیشہ نماز مختصر پڑھانے اور جامع بیان کا مشورہ دیں۔ مسجد کے نام پر تجاوزات سے گریز کریں۔ چھوٹے بچوں کو مسجد میں دیکھ کر ’’اوئے اِدھر کیا کر رہے ہو‘‘ کی آوازیں نہ لگائیں اس کی معصوم آواز پر ’’بدتمیز چپ کرو‘‘ نہ کہیں، بھئی بچے جو دیکھتے ہیں وہ ہی کرتے ہیں ذرا سوچیں! اگر آج مساجد میں نوجوان نسل نظر نہیں آرہی تو کہیں آپ کا اس میں قصور تو نہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات میں مسجد نبوی میں حسنین کریمین آپ کے کندھے مبارک پر سوار ہوتے اور آپ سجدہ لمبا کر دیتے۔ کیا وہ مسجد نبویﷺ میں بھاگتے، دوڑتے، شور کرتے، اچھلتے کودتے نہیں ہوں گے۔ تو کیا آج کے نمازیوں کا خشوع و خضوع نبی ﷺیا صحابہ کرامؓ کی نمازوں سے زیادہ ہے۔ مساجد کے ساتھ کسی ہال کو خواتین کے لئے مختص کر یں جبکہ آج نئی مساجد میں ’’خواتین ہال‘‘ بنانے بے حد ضروری ہیں۔ جو کہتے ہیں خواتین کا مساجد میں آنا مناسب نہیں ان سے کہیں جب بازاروں، تفریح گاہوں، ہوٹلوں، پارکوں، شادیوں میں خواتین کا جانا آپ کے نزدیک جائز ہے تو ہمارے نبی ﷺ کی تعلیم کے مطابق مسجد میں خواتین کا جانا جائز ہے۔ خواتین کیلئے جمعہ کی نماز کا فوری اہتمام کریں۔ ضعیف نمازیوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کریں۔ بجلی، پانی اور گیس کا فضول اور غیرقانونی استعمال نہ کریں اور نہ کرنے دیں۔ مساجد کی رقم اور سامان کو ذاتی استعمال میں لا کر گناہ گار نہ بنیں۔ مساجد کو کمیونٹی و ویلفیئر سنٹر کا درجہ دیتے ہوئے لائبریری، ڈسپنسری کا اہتمام کریں۔ خواتین و مرد کو ماہانہ اپنی آمدن کا ایک فیصد حصہ مسجد کو دینے کی دعوت دیں، مساجد انتظامیہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ وہی عالم دین ہے جو حق بات کہنے پر حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اور کسی پریشر کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن آپ سے خوف زدہ رہتا ہے۔ یاد رہے مساجد میں شرعی طور پر تعویزات بیچنا اور ہر طرح کی خریدوفروخت منع ہے۔ مسجد میں ذاتی معاملات کیلئے بھیک مانگنا جائز نہیں، مناسب تحقیق کے بعد حقیقی مستحق کے لئے خود اعلان کریں۔ سرکاری، نیم سرکاری اور خاص طور پر اوقاف کے امام وخطیب کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو تو اس کی اطلاع محکمہ کو دیں۔ یہ مت سوچیں کہ میری مسجد میں ایسا ہونے سے معاشرہ کون سا ٹھیک ہو جائے گا بھئی! ایسا نہیں اس قوم کی طرح نہ کریں جس کے بادشاہ نے کہا تھا کہ رات کو حوض میں ہر فرد دودھ ڈالے، صبح دیکھا تو سارا حوض پانی سے بھرا ہوا تھا۔ بددیانت قوم ساری رات اس نیت سے پانی ڈالتی رہی کہ’’ میں پانی ڈال دیتا ہوں باقی دودھ ڈال دیں گے‘‘۔ اگر ان سے کوئی معمولی اخلاقی غلطی سرزد ہو جائے تو رازداری سے پردہ میں رکھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کریں امام وخطیب سے توقعات میں توازن رکھیں کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ تو نہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں (القطب قدیزنی) قطب وقت سے بھی گناہ کبیرہ کا ہونا ممکن ہے۔ ہیجانی جذبات سے مغلوب شخص سے فطری مگر غیرشرعی امر ہوسکتا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر نور احمد شاہتاز کی کتاب ’’امام وخطیب کی شرعی ومعاشرتی حیثیت‘‘۔ عزیز دوست لقمان شریف کی جنگ فیچر رپورٹ پڑھ کر معلوم ہوا کہ مساجد میں اکثر علماء کرام پر بیہودہ الزامات بھی لگتے ہیں لاہور میں ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے بعد لاش مسجد کی چھت سے ملی مولانا نے عوامی پریشر اور پولیس کے تشدد سے کہا میں نے قتل کیا ہے لیکن فرانزک رپورٹ نے کہا کہ زیادتی اور قتل مسجد سے منسلک حجام نے کیا تھا۔ اس لئے چار گواہوں والی قرآنی شہادت کے شرعی اصول اور جدید سہولتوں پر بھروسہ کریں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے تیس ہزار مساجد کے آئمہ کو ماہانہ دس ہزار وظیفہ دینے کا جو عمل شروع کیا ہے باقی صوبوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اہل محلہ کسی شخص کومحض مالدار یا ناموری کی بناء پر رکن انتظامیہ کی اہم ذمہ داری نہ سونپیں، بلکہ علم وتقویٰ، ذمہ دارانہ رویہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو معیار بنائیں۔ جمعہ کی مناسبت سے عرض ہے روحانی،مالی، گھریلو مسائل کے حل اور خیروبرکات کے حصول کیلئے کسی وقت خصوصاً بعد از نماز عصر 80بادرود شریف کا وظیفہ بنائیں۔

تازہ ترین