• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2017ء جاتے ہوئے شرمسار ہورہا ہے کہ اگر مڑ کے دیکھے تو کتنے عذاب اور دشنام اس کے نام نکلیں گے۔ ہماری لغت سے ایک لفظ تو قطعی طور پر نکل گیا ہے اور وہ ہے ’’برداشت‘‘ اس میں چاہے مذہبی لوگوں کا نام لو چاہے ادیبوں، سرکار یا پھر امن بحال کرنے والے اداروں کا، سب کے سب سوا سیر ہیں،ادارے یا ان کے بارے میں کچھ لکھ دیں۔ اس کا جواب دو طرح سے ملے گا۔ ایک تو آپ کو سفید کپڑوں والے ہاتھ ملاکر، آرام سے اٹھا کر لے جائیں گے۔ پھرلاکھ دھرنے دو، لاکھ فریاد کرو، لاکھ مضامین لکھو، جو اب بھی اور اصحاب بھی نامعلوم افراد میں شامل، پتہ نہیں ملک بدر کردئیے جاتے ہیں کہ زمین کھا جاتی ہے کہ آسمان نگل لیتاہے۔ وہ ملک میں پھر نظر نہیں آتے۔ ویسے سب کے منہ سے یہی نکلتا ہے کہ آزادی صحافت جتنی آج تھی، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ اس سال میں جس چیز نے سب سے زیادہ سر اٹھایا، وہ ہے مذہبی تنگ نظری، اس لئے ایک جاہل بچے کے خلاف نعوذ باللہ، قرآن کے صفحات جلانے کا مقدمہ بھی درج ہوتا ہے اور سنی سنائی باتوں پر بھی۔ پھر انجام کیا ہوتا ہے، فیض آباد چوک میں دھرنا، زور آور اتنے کہ جس جس کو کہیں کہ اپنے محکمے کے نام کے ساتھ دستخط کریں، ان سب کو حکم ماننا پڑا، تب جاکر دھرنا ختم ہوا۔
یہ واقعات تو ضیاء الحق کے زمانے سے چلے آرہے ہیں اب واٹس ایپ ٹیلیفون میسیج اور جلسوں میں بھی کسی کے ہاتھ کی انگلی دباکر یا آنکھ سے اشارہ کر کے، کبھی توجہ یا کبھی اس سے بھی آگے کی منزل کی جانب دعوت، اگر قبول ہے کہ نہیں، اس سال باآواز بلند، اعلان ساری دنیا میں ہورہا ہے کہ مجھے یا پھر مجھ سے بھی زبردستی کی گئی یا کرے گا اشارہ دیا۔ اس سال یہ بات اتنی پھیلی کہ بہت سے یورپی، امریکی اور عالمی سطح پر معروف لوگوں کے بارے میں خواتین زبان کھول رہی ہیں۔ جن کو ہو جان و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں، القاب بھی صرف اتنا ہے "Me too" لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جملہ انجینلا جولی کہہ رہی ہے۔
وہ پرانہ ’’مصرعہ‘‘ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کے مطابق ایک طرف انتہا پسند جماعتوں نے کٹھ کرلیا ہے کہ آنے والے الیکشن میں اقتدار کے علاوہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے، جبکہ سعودی عرب والوں نے تو عورتوں کو موٹر سائیکل چلانے، ملک بھر میں سینما ہائوسز کھولنے اور ایک بہت بڑے رقبے پر ’’آزاد شہر‘‘ قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
عورتوں کو چھیڑنا، میرا خیال ہے ابو آدم سے شروع ہوا۔ اب تو سیاسی جلسے ہوں کہ گاڑی چلاتی خاتون، پرس چھیننا ہو کہ جہاز میں بھی بے چاری ایئر ہوسٹس سے لگ کر گزرنا، ایسے عوامل شہروں کا کلچر ہوچکے ہیں۔ البتہ دیہات میں جرگہ فیشن ہوگیا۔ مقصود، عورت کو بے عزت کرنا۔ ایسی ہی منزلیں، خانگی معاملات کو اچھالنے اور صفحہ اول پر، ایسی خبروں کو جلی حروف میں لکھنا، ٹی وی پر ریٹنگ بڑھاتا ہے اور پڑھنے والا اگلے دن کا اخبار ضرور خریدتا ہے کہ دیکھیں اب کیا ہوا۔
پندرہ بیس سال پہلے، ہتھوڑا گروپ سامنے آیا تھا۔ اس سال چھرا گروپ سامنے آیا، اس کو بھی نامعلوم افراد کی طرح نفسیاتی مسئلہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ترقی اور ہوئی کہ جسمانی ہراسانی کی خبریں پہلے اندر کے صفحات پر دی جاتی تھیں۔ اب ٹی وی ہو کہ اخبار، شکر ہے کہ اب لڑکی کی شکل پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ کچھ ایسے نازک معاملات ہوتے ہیں کہ جیسے چھوٹی بچی سے بزرگ کی شادی، کسی دوسرے مذہب کی لڑکی یا لڑکے کو کلمہ پڑھانا یا پھر غیر ممالک میں شادی کرنے والے کو جب اس ملک کی قومیت مل گئی تو پاکستان آکر نئی شادی یہ سلسلہ اس وقت سے خاص طور پر شروع ہوا جب پاکستانی باہر جانا شروع ہوئے۔ گزشتہ دس برس میں وڈیروں کی زیادتیوں کے قصے، ساس بہو کے قصے اور شادی کے بعد کبھی لڑکے کو کبھی لڑکی کے تعلقات کو بھی خوب اچھالا جارہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ لوگ جو ڈائجسٹوں میں لکھتے تھے، وہ بقول عام ناول نویس ہیں۔ اخلاقی زوال کے لئے تو بہترین مثال، وہ سارے سیاسی مذاکرے ہیں جو چوبیس گھنٹوں میں کوئی تین مرتبہ دہرائے جاتے ہیں۔ کئی سینیٹر تو ایسے ہیں کہ لڑکی ذرا زیادہ بولیں تو اس پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
بنکاری میں ایک فیشن جو پہلے بھی تھا مگر اس سال تو بہت فیشن میں ہے، وہ ہے بلا سود بنکاری، سٹہ لگانا، پہلے صرف ریس کے گھوڑوں پہ سٹہ لگایا جاتا تھا۔ اب کئی سال سے بکرز، مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں، میڈیا کے سارے ترازو آزماتے ہیں، کئی نو آموز پھنس جاتے ہیں۔ اس سال آف شور کمپنیوں کے راز بھی خوب کھلے، جن پرمقدمے چلے تھے۔ وہ بیمار بھی بہت ہوئے، 35 سالہ سیاسی شعبدہ بازی لب بام ہوئی اور مجھے کیوں نکالا، قومی فقرہ بن گیا۔
2017ء، صحافیوں پر ایک دفعہ پھر بہت بھاری رہا، 68 میڈیا کے لوگ اور صحافی صرف اسی سال مارے گئے۔ اسی طرح یہ سال این جی او کے زوال کا سال رہا یہ تک ہوگیا کہ بین الاقوامی این جی اوز کو بھی تالہ بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزار آپریشن ہوئے، مگر دھماکے معصوموں کی جان لیتے رہے۔ خاص طور پر اقلیتوں کی عبادت گاہیں، دہشت گردوں کا نشانہ رہیں۔
2016ء میں نوجوان فلم اور ڈرامے کے ہدایت کارسامنے ایسے آئے کہ کچھ کچھ آنے والے زمانوں پر اعتبار آنے لگا ہے۔ ورنہ زمانے کو آگے تو آنا تھا۔ مگر شعیب منصور کو اپنے انداز کی فلم کی بجائے کچھ نفسیاتی فلم بنانے کا جنون ہوا۔ دیکھ تو رہے ہیں لوگ، واپس آکر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ شعیب منصور کیا دکھانا چاہتے تھے۔ البتہ پنجاب نہیں جائوں گی بہت اچھی اسکرپٹ ڈائیلاگ اور فوٹو گرافی میں سب سے آگے نکل گئی۔
2017ء جاتے جاتے، سیاسی اکھاڑے ایسی حالت میں چھوڑے کہ مجھ جیسی عمر رسیدہ کو بھی 1976ء یاد آگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت کے وزیر بھی ڈبہ اٹھاکر دوڑتے، اخباروں میں نظر آتے تھے۔ جب بھی مذہبی جماعتوں نے اتحاد بنایا تھا۔ جب بھی فوج نے یقین دلایا کہ ملک کو جمہوریت کی کتنی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم فراز کوچھڑانے کے لئے گئے 27 جون کو تو اس وقت ہمیں باور کرانے کے لئے بھٹو صاحب کی حکومت اور جمہوریت کی ضرورت پر اس قدر زور دیا گیا تھا کہ جب 5جولائی کو ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے تو مسعود اشعر ایک عجیب سی ہذیائی ہنسی کے ساتھ ہمارا مذاق اڑتا رہا تھا۔ خدا کرے 2018ء میں مسعود کو یہ موقع پر پھر نہ ملے۔

تازہ ترین