• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
زندگی ہر لمحے خطرے میں ہے، یہ اقبالؒ کا قول ہے، دنیا کا کوئی شخص اگلے سانس بارے پیش گوئی نہیں کرسکتا، اس لئے ’’زندگی ہر لمحے خطرے میں ہے‘‘ کی صداقت پر سوال نہیں اٹھنا چاہئے نہ اٹھانا چاہئے، پاکستان کی سیاست بھی اس دائرے سے باہر نہیں رکھی جاسکتی، آخر سیاست تو زندگی کا متحرک ترین تقاضا ہے!
اب کوئی چاہے کتنے ہی بڑے سیارے پر بیٹھ جائے، واقعہ یہ ہے، حامیوں یا مخالفوں سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، نہ ماحول کی کسی درجہ کی گہرائی تک یہ خیال کہیں گردش میں دکھائی دیتا تھا یعنی مملکت سعودیہ کوئی خصوصی طیارے بھیجے گی، اس میں ’’ن‘‘ لیگ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے نامزد امیدوار کو نہایت ہنگامی طور پر اپنی سرزمین پر بلوا کر ان سے کوئی بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے گی، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
اور نااہل کا لاحقہ لگا کر، سابق منتخب معزول وزیراعظم کے بیرون ملک جانے سے عدالتوں میں پیشی تک کے تذکروں میں ہر ممکنہ ’توہین‘ کی تجاویز پیش کرنے والے حضرات و خواتین پر اس وقت کیا بیتی ہوگی جب قومی سلامتی کے مشیر (ر) جنرل جنجوعہ نے اسی نااہل، معزول وزیراعظم سے 5گھنٹے تک ون ٹو ون اہم ترین ملاقات کی، ظاہر ہے اس میں صحت و موسم سے کہیں زیادہ حساس ترین قومی و بین الاقوامی مسائل ہی پر تمام تر گفتگو ہوئی ہوگی!کامن سینس تو یہی کہتی ہے، ہاں! مخالفین کی ’’چھٹی حس‘‘ اس میں سے بھی بقول منو بھائی، ’’درفنطنیاں‘‘ برآمد کرسکتی ہے!چنانچہ کائناتی سچائیوں کے ان بیان کردہ دو اصولوں نے اپنا آپ دکھایا ’ن‘ لیگ اور اس کی ’’لیڈر شپ‘‘ کے ملکی سیاست میں عوامی تاثر نے ایسی فیصلہ کن زقند بھری ہے جسے واپس لانا قریب قریب ناممکن ہے، اسے آئندہ قومی انتخابات میں پاکستان کےمرکزی اور صوبائی اقتدار سے باہر رکھنا ناممکن ہے، کا پیغام مل رہا ہے، اسے کہتے ہیں ’’کبّے کو لات پڑی وہ سیدھا ہوگیا‘‘، بعض اوقات اسے مخالفوں کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں ’’وہ سو پیاز کے ساتھ ساتھ سو جوتوں سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں‘‘یہ جو مقطع میں خواجہ سعدرفیق کی خطابی ’’غزل گوئی‘‘ سے سخن گسترانہ رمز آن پڑی ہے، اس کی بھی خاصی سیاسی لذت آمیزی، خاصی نظریاتی مہم جوئی اور خاصی سیاسی حکمت آزمائی شامل ہیں، اسے آپ سعد رفیق کی سیاسی جوانی کے کسی ناقابل ضبط دور کی واپسی نہ سمجھیں، یہ تو یوں لگتا ہے جیسے ان کی آج کی سیاسی پختہ عمری نے اپنی ذہنی جولانیوں کے اشاریے دیئے ہیں، ایسے اشاریے جن کے تناظر میں افواج پاکستان کے عوامی رابطے کے ادارتی مدارالمہام اور ترجمان کو ہنگامی پریس کانفرنس کا اہتمام کر کے ان کے بیان کو ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ ڈیکلیئر کرنا پڑا۔ آخر کو ایسا کیا کہا گیا جس کے بعد سعد رفیق کو اس نالائقی کا ہدف ٹھہرانے میں ذرا سی بھی ذہنی ہچکچاہٹ یا قباحت محسوس نہیں کی گئی؟وفاقی وزیر اور ’’ن‘‘ لیگ کے عوامی لحاظ سے نہایت ہی طاقتور شارح خواجہ سعد رفیق نے اس تناظر میں ’’جیو‘‘ کے شاہ زیب خانزادہ سے عمرے پر جانے سے پہلے، لاہور ایئرپورٹ پر جو اظہار خیال کیا، اس کا لب لباب یہ ہے ’’پرویز مشرف نے قابل اعتراض بیان دیا ان سے کسی نے پوچھا بھی نہیں، میں نے تو مفاہمت کا بیانیہ دیا، جو ہورہا ہے اس پر افسوس ہی کرسکتا ہوں، جو مطلب نکال رہا ہے وہ بھی غلطی پر ہوسکتا ہے، اپنے بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ردعمل پر صدمہ ہوا ہے، میرا مقصد واضح اور بہت سے لوگوں کو معلوم ہے، میرا مقصد ہے کہ پارلیمنٹ، افواج، عدلیہ اور سول بیوروکریسی مل کر آگے بڑھے، میری ستائیس منٹ کی تقریر کو سن لیا جائے تو تمام بات واضح ہو جاتی ہے، میں نے بار بار یہی کہا کہ اگر خدانخواستہ محاذ آرائی ہوئی تو ملک کے دشمن فائدہ اٹھائیں گے، ہمیں ایک دوسرے کو معاف کر کے اور سب کچھ بھول کر آگے بڑھنا ہے، میں نے نیک نیتی کے ساتھ یہ ساری باتیں کی ہیں، میں نے اپنے بیان کی وضاحت جاری کردی ہے، ایک دو جملوں یا چند الفاظ کی بنیاد پر رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر بہت عمدہ اور مثبت آدمی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی علم ہے، میرے ارادے بہرحال اچھے ہیں، میں نے مارشل لاء کے دور میں بھی ایسا جملہ نہیں بولا جس سے افواج کے اہم ادارے میں تقسیم کا کوئی پہلو نکلتا ہو‘‘ْ
وفاقی وزیر کے اس سارے بیانیے میں اورفی نفسہٖ کی ستائیس منٹ کی حالیہ تقریر اور گزشتہ قریباً ایک برس کے سیاسی اور ریاستی پہلوئوں سے بیانات میں مکالمے بھول جانے اور آگے بڑھنے کا نقطہ نظر ہی سامنے آتا رہا ہے، بایں ہمہ ڈی جی آئی ایس پی آر، یقیناً وہ بہت عمدہ اور مثبت آدمی ہیں، ان کا سراپا بدیہہ ایک جینوئن آدمی ہونے کی مکمل تصدیق کرتا ہے، ’’عمدہ اور مثبت‘‘ ہونا اپنی جگہ اور وفاقی وزیر کی ’’سیاسی نیت اور سیاسی نظریے‘‘ پر رائے دینا اپنی جگہ، کیوں؟ اس لئے کہ وہ افواج پاکستان اور موجودہ آرمی چیف کے ترجمان ہیں۔ انہیں یہی کہنا چاہئے۔ ’’بیان غیر ارادی نہیں لگتا، چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا گیا، سازش ہے تو ثبوت دیا جائے، اس وقت فوج میں کوئی سرکش عنصر موجود نہیں، مشرف کا ترجمان نہیں انہی سے پوچھیں‘‘۔وقوع کیا ہے؟ یہ کہ سعد رفیق بھی صحیح کہتے ہیں اور غلط ڈی جی آئی ایس پی آر بھی نہیں، سعد پاکستان میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی جدوجہد کے مسافر رہے ہیں جبکہ میجر جنرل آصف غفور بہرطور آرمی کے حاضر سروس، ملازمت پیشہ آفیسر ہیں، وہ اپنے ادارے کی ترتیب اور عمل پذیری کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، ان کے لئے ملک و قوم کے وسیع پس منظر کو اپنے ادارے کی متعین حدود سے نکل کر دیکھنے کے امکانات نہیں،ویسے یہ اپنے فرض منصبی سے بھی روگردانی ہوگی!تاریخ کا جبر میجر جنرل آصف غفور کا کیا دھرا نہیں، جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی اپنے ’’لاپتہ‘‘ ہونے کے خدشات سامنے لائیں یا چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے پائے کی قومی شخصیات؟ ’’چاہے لاپتہ ہو جائیں‘‘ جیسے علامتی ابلاغ کا استعمال عمل میں لائیں، تب یہ کسی دھرتی پر تاریخ کے مسلط جبر کا نتیجہ ہی ہوتا ہے، لندن میں بیٹھا ’’ہلکا آدمی ‘‘ جنرل (ر)پرویز مشرف ملک سے کس طرح باہر چلا گیا؟ ہم میں سے کوئی بھی سیدھے ’’سچ‘‘ پر قائم نہیں ہوسکتا، آئیں، بائیں اور شائیں کی مثلث میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان کا ذرہ ذرہ جانتا ہے، وہ کس برتے پر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوا؟ ذرہ ذرہ بول رہا ہے، بس ہم نہیں بول رہے، سعد رفیق اپنے نظریاتی انداز میں تاریخ کے اس جبر سے آگاہی کا کام کر جاتے ہیں، مگر تاریخ کے ایک ’’دوسرے جبر‘‘ سے انہیں بھی آگاہی ہونی چاہئے اور یہ آگاہی انہیں ہر وقت یاد بھی رکھنی چاہئے،
مسلمانوں نے اپنی تیرہ ساڑھے تیرہ سو برس کی تاریخ میں فاتح کی حیثیت سے بیسیوں بار مفتوح قوموں کو معاف کیا ہوگا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن مسلمانوں نے باہمی تصادموں اور مناقشوں میں شاید ہی کبھی ایک دوسرے کو معاف کیا ہو، تاآنکہ غرناطہ کے کسی عبداللہ کی ماں اسے کہہ رہی ہوتی ہے ’’اب فرڈیننڈآگیا ہے توآنسو بہارہے ہو!
وہ ’’ہلکا آدمی‘‘ جس نے آرمی چیف بننے کے کچھ عرصہ بعد اپنے خودپرست زعم میں کارگل کردیا، آج تک اس کے چہرے پر کسی قطرہ انفعال کے وجود کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، اپنے ہی ادارے کیلئے سوالات کا بحران بن رہا ہے، آج میجر آصف غفور کو کہنا پڑتا ہے ’’میں پرویز مشرف کا ترجمان نہیں، ان کے متعلق انہی سے پوچھیں‘‘اصل کہانی کیا ہے؟ سعد کے نظریات کا مرکز ثقل کیا ہے؟ وہ ہے ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے سفر میں ’’ایکٹیویٹی‘‘ کی ’’ہٹیاں یا کاروبار‘‘ بند کردو، سیاست اور عوام کیا ہیں، وہ معزول و معتوب سیاستدانوں کو ووٹ کے علاوہ کہیں نہیں جانے دیتے، مثال کیلئے آج کے نوازشریف اور شہباز شریف، جیسے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت، کوئی ’’ایکٹیویٹی‘‘ انہیں عوامی دربار میں سرخروئی سے محروم نہیں کرسکی! وقت کا گجر بج چکا ہے، بس یہ یاد رہے، آج کے وقت کا ’’گجر‘‘ بجنے اور 7اکتوبر 58ء کا گجر بجنے میں 59برس کا فاصلہ ہے!

تازہ ترین