• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ کوئی اس سوال کا جواب دینے کیلئے تیا رنہیں ہے کہ آئندہ عام انتخابات بروقت منعقد کیوں نہیں ہوں گے ؟ اور عام انتخابات کے بغیر نئی حکومت کا قیام کیسے ممکن ہو گا ؟ سب لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ آئین کے ’’ آرٹیکل ۔ 6‘‘ میں نہ صرف غیر آئینی یا ماورائے آئین اقدامات کیلئے تمام رستے بند کر دیئے گئے ہیں بلکہ ایسے اقدامات کو سنگین غداری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس آرٹیکل ۔ 6کے تحت کوئی بھی شخص طاقت کے استعمال ، طاقت کے اظہار یا غیر آئینی طریقوں سے آئین کو منسوخ ، ملتوی یا متاثر نہیں کر سکتا یا اس کی کوشش یا سازش نہیں کر سکتا ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا ۔ سپریم کورٹ یا کوئی بھی ہائی کورٹ ایسے غیر آئینی اقدامات کو جائز بھی قرار نہیں دے سکتی ۔ سنگین غداری کے مرتکب شخص کی سزا پارلیمنٹ طے کریگی ۔ آرٹیکل ۔ 6 کی صراحت یا وضاحت کیلئے کسی کا آئینی یا قانونی ماہر ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اسکی صراحت یا وضاحت کیلئے عدالتوں کی مدد یا معاونت کی ضرورت ہے ۔ اسکے باوجود یہ ’’ تھیوری ‘‘ موجود ہے کہ آئندہ عام انتخابات بروقت نہیں ہونگے اور کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دو تین برسوں تک لوگ عام انتخابات کو بھول جائینگے ۔
قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ۔ ایسی کسی غیر آئینی حکومت کے قیام کا راستہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ اس وقت پاکستان ایک اور اہم سنگ میل عبور کرنے کے قریب ہے ۔ 2013ء میں پہلی مرتبہ ایک آئینی حکومت سے دوسری آئینی حکومت کو پرامن انتقال اقتدار ہوا ۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے ایک ایسا سنگ میل عبور کیا تھا ، جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں ۔ اب اگر 2018 ء میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہو جاتا ہے تو ہم دوسرا سنگ میل عبور کر لیں گے ۔ اگر یہ مرحلہ بھی بخوبی انجام پا جاتا ہے تو پاکستان کی سیاسی کیمیا ( پولٹیکل کیمسٹری ) بہت حد تک تبدیل ہو جائے گی لیکن اس مرحلے سے پہلے ہی شکوک و شبہات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسے حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں ، جو ان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔ خارجی اور داخلی حالات کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر تیزی سے رونما ہونیوالی تبدیلیوں نے پاکستان کیلئے بہت چیلنج پیدا کر دیئے ہیں ۔ پاکستان بوجوہ امریکی کیمپ سے نکل چکا ہے اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کی وجہ سے دنیا کا اہم ترین ملک بن گیا ہے ۔ پاکستان میں امن اور جمہوری عمل سے بعض عالمی طاقتوں کا عالمی ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا ۔ جنہوں نے اس خطے میں ماضی میں بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے گزشتہ چار عشروں سے پاکستان کو بدامنی کی آگ میں جھونک رکھا ہے ۔ اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عالمی طاقتیں پاکستان میں مزید مہم جوئی کر سکتی ہیں تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے اور اس خطے میں ہونے والی نئی صف بندی کو روکا جائے ۔ کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی امکانی صورت حال سے نمٹنا جمہوری حکومتوں کے بس میں نہیں ہو گا ۔ یہ تھیوری بہت کمزور ہے کیونکہ امن وامان اور سکیورٹی سے متعلق امور اس وقت بھی جمہوری حکومتوں کے پاس نہیں ہیں اور وہ غیر اعلانیہ طور پر ان امور سے خود ہی لاتعلق ہیں ۔
دوسری تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیاسی حکومتوں کی کارکردگی بہتر نہیں ہے اور وہ مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہیں ۔ اس لئے بعض قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پہلے احتساب ہو ، پھر انتخاب ہوں تاکہ ملک میں بدعنوانی اور نااہلی سے پاک جمہوری حکومتیں قائم ہو سکیں ۔ یہ تھیوری اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن اس وقت کارگر نہیں ہے ۔ احتساب کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے اور جمہوری حکومتوں میں ایسے احتساب کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ عدالتیں وہ کام کر رہی ہیں ، جو کچھ لوگوں کے خیال میں احتساب کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔ عدالت کے ایک حکم پر طاقتور ترین سیاست دان میاں محمد نواز شریف نے منٹوں کے اندر پرائم منسٹر ہاؤس چھوڑ دیا ۔ قبل ازیں یوسف رضا گیلانی بھی کمرہ عدالت میں وزارت عظمی سے محروم ہو گئے تھے ۔ قومی احتساب بیورو ( نیب ) اور احتساب کے دیگر ادارے بھی جس طرح کام کر رہے ہیں ، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ادارے جمہوری حکومتوں کے زیر اثر ہیں ۔ ایسی صورت حال میں ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور احتساب کی خواہش مند قوتوں کو غیر آئینی اقدامات اور ہر چیز اپنے سر لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے ۔ آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے غیر یقینی ہونے کی تیسری تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ سیاسی جماعتیں دوبارہ برسر اقتدار آ سکتی ہیں ، جنہوں نے پہلے ہی بہت خرابیاں پیدا کر رکھی ہیں ۔ یہ تھیوری بھی بہت کمزور ہے کیونکہ ایسی سیاسی جماعتوں کو ’’ ڈس کریڈٹ ‘‘ کرنے کے جو حالات اس وقت ہیں ، پہلے کبھی نہ تھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کے کنٹرول میں بھی نہیں ہے ۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے ، سب تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
بلوچستان کی سیاست بھی کسی کے بس میں نہیں رہی ۔ باقی سندھ کے اضلاع سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سیاست دان اشاروں کے منتظر ہیں نئی کنگ پارٹی میں ٹکٹ کے حصول کیلئے قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سعودی عرب میں جمع ہے ۔ پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔ پاکستان کی سیاست روایتی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں اتنی بھی نہیں ہے ، جتنی ضیاء الحق یا پرویز مشرف کی حکومتوں کے دور میں تھی ۔ اس طرح عام انتخابات کو ملتوی یا موخر کرنے کا آئینی راستہ بھی نہیں ہے اور جو قوتیں ماضی میں ایسا کرتی رہی ہیں ، اس وقت سب کچھ ان کے اختیار اور بس میں ہے ۔ انہیں اب ایسا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ البتہ پاکستان کے ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام تر کمزور تھیوریز کے باوجود شکوک و شبہات کو ذہنوں سے نکالنا آسان نہیں ہے ۔

تازہ ترین