• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قیام کی تاریخ تو اتنی شاندار ہے کہ پوری ترقی پذیر دنیا میں اس کی مثال نہیںملتی۔ ظہور مملکت کے بعد بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے پاکستان کے نظریے اور اس کے مطابق باقیماندہ ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بنانے کی جدوجہد کو ختم نہیں ہونے دیا۔ تلخ ترین سیاسی تاریخ کے 28 سالہ پس منظر لئے اس کی بنیاد پوری قوم نے رائج الوقت آئین 1973 کی شکل میں رکھ دی تھی۔ پاکستان کا آئینی نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہونا، قرارداد مقاصد، آئین میں عقیدہ ختم نبوتؐ کے تحفظ کی ضمانت اور آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 پاکستان کے اسلامی جمہوری تشخص کو واضح کرتی ہیں۔ سو کسی نئے سوشل کنٹریکٹ کا شوشہ لغو ہے کہ رائج دستورملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے تیار اور نافذ العمل ہوا۔ یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ سقوط ڈھاکہ 25 سال تک متفقہ دستور بنانے میں ناکامی کا ہی شاخسانہ تھا۔
آج پاکستان علانیہ اپنے آئین کے اعتبار سے اسلامی جمہوریہ تو ہے ہی کہ وفاق پاکستان کی وحدتوں کے اتحاد کی اور کوئی دوسری ضمانت بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کو اس کی روح کے مطابق مکمل نافذ نہ کرنے اور بدترین جمہوریتوں کے تسلط کے باعث فوجی آمریتوں کی پھر جگہ بنتے رہنے سے ملک پر جو موجودہ اسٹیٹس کو مسلط ہوا، وہ پاکستان کے بطور ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جبکہ قیام پاکستان کی حقیقت اتنی جاندار اور نتیجہ خیز ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئین کے جزوی نفاذ اور فوجی اورسول حکمرانوں کی بار بار بیڈ گورننس کے باوجود پاکستان دنیا کی فقط سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنا ایک بازو کٹ جانے کے باوجود عالمی اور علاقائی سیاست میں سرگرم اور نتیجہ خیز کردار اد ا کیا اور کر رہا ہے۔
قومی سیاست میں اسٹیٹس کو کے بدترین غلبے کے باوجود پاکستان کی فوج دنیا کی منظم ترین اور اعلیٰ عسکری صلاحیتوں کی حامل چوٹی کی افواج میں سے ایک ہے۔ ہمارے پاس ہر فیلڈ کے ماہرین کی بھی ایک اور فوج ہے۔ ہمارا آئین شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے تمام تر مواقع موجود ہیں۔ قومی صحافت آزادہی نہیں بیباک اور قومی ضرورتوں کے اہداف حاصل اور پورے کرنے میں بے حد معاون، اطلاعات و تفریح کی فراہمی اور حالات حاضرہ، رائے عامہ کی تشکیل کے روایتی مقاصد پورے کرنے کے علاوہ اب اہم ترین جمہوری عمل کو سٹریم لائن کرنے ، جاری قومی احتسابی عمل اور گورننس کی مانیٹرنگ میں اس کا کردار تاریخ ساز ہے۔بالائی سطح کی عدلیہ آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں اطلاق کے عظیم کردار سے اپنی خطائوں کا کمال کفارہ ادا کر رہی ہے۔ شکر الحمد للہ۔
پاکستان میں آج کی قومی سیاست احتساب کے عمل سے جڑ گئی ہے۔ ایسی کہ اب اسے علیحدہ کیا ہی نہ جا سکے گا۔ کیا یا کرنے کی کوشش کی گئی، جیسا کہ اسٹیٹس کو کی سیاسی طاقتوں سے عدلیہ کو پھر سے اپنا تابع مہمل بنانے کے حربے اور ابلاغ ہو رہا ہے، تو یہ شروع ہونے والے احتسابی ہی نہیں جمہوری عمل کے لئے بھی مہلک ہوگا۔ اس جاری احتسابی عمل کے لئے جس سے آنے والے انتخابات کے بعد عدلیہ کی طرح پارلیمان کا معیار بلند ہونے، گورننس میں شفافیت، احتسابی عمل کے ناگزیر ہونے اور اداروں کے اپنی اپنی حدود میں رہنے کے امکانات آج کے مقابل وسیع تر ہوتے جائیں گے۔
اسی پس منظر میں نیب کے نئے چیئرمین جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کی نئی لی گئی پوزیشن کے مطابق پاناما لیکس کے پاکستان سے متعلقہ تمام انکشافات کی روشنی میں ریفرنس تیار کرنے کے تاریخی فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ آئین و قانون کے بلاامتیاز نفاذ کے اصول پر اب تک احتساب سے بالا بالا رہنے والی اسٹیٹس کو کی قوتیں، جتنا مرضی احتجاج اور چیخ و پکار کرلیں وہ پاناما لیکس سے ہونے والی بے نقابی پر اب مٹی نہیں ڈال سکتیں۔
پاکستان میں آئین و قانون کی روشنی میں احتسابی عمل تو مدت سے ایک عظم قومی ضرورت کے طور پر واضح ہو چکا ہے۔ اسے مطلوب ملزمان ہمیشہ اس کج بحثی کےساتھ دبا دیتے تھے کہ یہ تو شروع ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ آخر یہ کس دور سے شروع کیا جائے؟ کتنے ہی مرکھپ گئے۔ اور کتنے ٹائم بارڈ ہوگئے۔
طرح طرح کی قانونی موشگافیوں سے شروع نہ ہونے والا اور کالی قانون سازی سے دبائے گئے احتسابی عمل کو اور مرضی کی اور گھر کی نہیں بلکہ معروف عدالتوں میں زیر سماعت لانا اب آئندہ قومی خزانے کے تحفظ اور جمہوریت پر بار بار عوام کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کی لازم ضرورت ہے۔ آئین و قانون کی روشنی میں احتسابی عمل خصوصاً حکمران اور دوسرے بالائی طبقات کا، ناگزیر ہو چکا ہے۔ احتساب مکمل ہو گا تو سماجی انصاف کے لئے یکساں اور حقیقی دروازے کھلیں گے۔
پاناما لیکس سے ہونے والی بے نقابی کا کوئی تعلق اندرونی ملکی سیاسی کھیل سے نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں کسی بیرونی سازش کا شائبہ ہے۔ پھر اس سے زیادہ تر حکمران طبقہ ہی بے نقاب ہوا ہے۔ پاناما لیکس اصل میں امیر اوردنیائے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے حکمرانوں اور اس کی سرکاری ایجنٹس بیوروکریسی کی سرکاری خزانے کی لوٹ مار اسے اپنی پراسرار کمپنیوں میں ٹھکانے لگائی کہانیاں ہیں، جو عالمی سطح پر گورننس میں شفافیت لانے اور اس سے غرباء و محرومین کو اس کا بینی فشری بنانے کا جہاد ہے، کیونکہ یہ پرخطر بھی ہے اور محال بھی۔ پاکستان میں بھی پاناما لیکس کی بازگشت سنائی دے ہی گئی ہے اور اسے قوم کے بڑے حصے، صدر مملکت اور خود حکومتی جماعت کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی کی ایک خاصی تعداد سے لے کر اپوزیشن جماعتوں، میڈیا کے ایک بڑے سیکشن ، پھر سب سے بڑھ کر عوام الناس (پیپلز ایٹ لارج) نے اپنے عقیدے اور تجزیے کی بنیاد پر ’’پکڑ جانبِ قدرت‘‘ مان لیا ہے۔
عدالتیں پوری ذمے داری اور سرگرمی، آئین اور قانون کی روشنی میں احتسابی عمل شروع کر چکی ہیں، نیب کی سرگرمی کے بعد اس کی ذمہ ذاری کا گراف بڑھتا معلوم ہو رہا ہے ، تو یقیناً یہ قدرت کا اہتمام بھی ہے اور اس پر عوام کا اتفاق بھی کہ پاناما لیکس کی بے نقابی سے شروع ہونے والا اور بڑھنے والا احتسابی عمل ہی مطلوب قومی احتساب کا وہ نقطہ آغاز ہے جس سے قوم نے کبھی اختلاف نہیں کیا، یہ آئین اسلامی جمہوریہ کا ناگزیر تقاضا ہے، لیکن ہمیشہ متنازع رہا کہ احتسابی عمل کہاں سے شروع کیا جائے؟قدرت، حالات اور قوم نے خود بخود فطری انداز میں واضح کردیا کہ مطلوب قومی احتساب کا مطلوب نقطہ آغاز پاناما ہی ہے، جو شروع ہوا اور بڑھتا ہوا نتیجہ خیز ہوگیا اور ہوگا۔
رسوائے زمانہ این آر او ٹائپ یا اسٹیٹس کو کے اور کسی روایتی یا انجانے حربے سے اسے دبانے کا حربہ وقتی طور پر چراغِ آخرِ شب آخر تو ہو سکتا ہے، پاکستان کے غریب عوام کا کھربوں روپیہ بیرون ملک ٹھکانے لگا کر اسے اپنی ناجائزجائیدادوں اور خفیہ کمپنیوں کے بھاری بھر کم اکائونٹس کی طاقت سے وہ نتائج نہیں نکال سکتے جو ماضی میں نکالتے تھے کہ اب ملک میں کوئی قیومی عدالت ہے نہ ڈوگر۔ اور فوج بھی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لئے پرعزم۔

تازہ ترین