• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوڈیرو میں یہ ایک خوشگوار صبح تھی، یہاں کے لوگ بہت سادہ، مخلص اور محبت کرنے والے ہیں۔ میں مناسب اور سادہ سے ریسٹ ہائوس میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو ویٹر مجھے ناشتہ فراہم کرنے کے انتظار میں تھا۔جب میں چائے نوش کررہا تھا تو ویٹر نے مجھ سے پوچھا ’’صاحب جی ہماری بی بی رانی اور بابا بھٹو کو کس نے اور کیوں مارا؟‘‘ اس سوال نے مجھے اداس کردیا جیسا کہ یہ سوال لاڑکانہ کے تمام باسی کررہے ہوں۔ میں نے اس کی آنکھوںمیں اپنی قیادت کے لئے عقیدت اور محبت دیکھی میں نے اس سے پوچھا ’’اسلام آباد میں کام کروگے؟‘‘ اس کا جواب کہیں زیادہ حیران کن اور چونکا دینے والا تھا اس نے نفی میں جواب دیا کہ اسلام آباد شاید غریب والدین کواس کی لاش ہی بھیجے، جیسا کہ دو سابق وزراء اعظم کی لاشیں میرے گائوں بھیجی گئیں۔ میں اس جواب پرگنگ رہ گیا۔ بی بی کے گائوں سے یہ ماحول اور دیہاتی کی ذہنیت تھی۔ میں لاڑکانہ اور اطراف کے علاقوں کے بارے میں تاریخ سے مزید کچھ سیکھنے کا فیصلہ کیا جومیں آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔ اس شہر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے تین وزر ااعظم ہوئے ایسا دنیا میں کوئی گائوں یا قصبہ نہ ہوگا۔ درحقیقت لاڑکانہ سندھ کا چوتھا بڑا شہر ہے اسے صوبے کی جنت بھی کہا جاتا ہے اس شہر کی بڑی تاریخی اہمیت ہے اس کا پاکستان کی معروف شخصیات کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے۔ نہ صرف دو سابق وزراء اعظم بلکہ شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کے دادا کا بھی تعلق لاڑکانہ سے ر ہا۔ پاکستان میں کوئی اور ایسا شہر نہیں جس نے ملک کوتین وزراء اعظم دیئے ہوں۔ لاڑکانہ کے اطراف میں علاقوں شکارپور، سکھر اور انتہائی قدیم آثار قدیمہ موئن جو ڈارو جو 5؍ ہزار سال قدیم آثار ہیں اوردنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں جو لاڑکانہ سے 28-25 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ایک اور قدیم مقام جوکر جو ڈارو ہے ۔ ان کے علاوہ متعدد مذہبی مقامات مشہور مارکیٹس بھی ہیں۔ جیسے اللہ والی مسجد، ریشم گلی، سونار کی مارکیٹ، مچھی مارکیٹ اور دیگر معروف مقامات ہیں۔ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن بھی شہر کے وسط میں ہے جبکہ ایئرپورٹ موئن جو ڈارو کے قریب واقع ہے۔ لاڑکانہ کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رہنمائوں کی بڑی زرخیز زمین ہے سندھ کی ثقافتی تاریخ بتاتی ہے کہ اس چھوٹے خطے سے پورے سندھ پر حکومت کی گئی۔ ایک طرف تو لاڑکانہ ریاست کے عظیم فیصلہ سازوں کا مسکن رہاہے دوسری جانب بھٹو خاندان کا سیاسی جادو بھی لاڑکانہ سے چلا۔ یہ قطعہ زمین حکمرانوں کا علاقہ اور کشش کا ذریعہ رہا۔ تاریخ گواہ ہے یہ رہنمائوں کی سرزمین ہے لیکن آمر جواب میں تابوت روانہ کرتے رہے۔ میرے خیال میں ویٹر نے اپنے خدشات کا درست اظہار کیا تھا۔ چھوٹا سا گائوں نوڈیرو ضلع لاڑکانہ کا قصبہ ہے جہاں بھٹو خاندان کے ارکان مدفون ہیں جن میں شہید ذوالفقار علی بھٹو،۔ میر مرتضیٰ بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبریں ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھٹو خاندان نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ اس خاندان نے مشکل وقتوںمیں پاکستان کو بحرانوں سے نکالا لیکن سانحات بھی اس خاندان کے تعاقب میں رہے ،اس کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی ہمت ہاری اور نہ ہتھیار ڈالے۔ اولین ذوالفقار علی بھٹو رہے جنہوں نے پاکستان میں انصاف اور حقیقی و سچی جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔ 1973ء تا 1977ء وہ پاکستان کے وزیراعظم رہے اس سےقبل 1971ء تا 1973ء ملک کے چوتھے صدر بھی رہے۔ پاکستان میں ان کے پیرو بھٹو کو احتراماً قائد عوام کہتے ہیں۔ قتل کا مجرم نہ ہونے کے باوجودانہیں 1978ء میں مجرم قرار دیکر 4؍ اپریل 1979ء کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تختہ دار پرچڑھادیا گیا۔ انہوں نے بیوہ نصرت بھٹو، بیٹوں میر مرتضیٰ اور میر شاہنواز بھٹو، بیٹیوں بے نظیر اور صنم بھٹو کو سوگوار چھوڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو تھے جو 27؍ سال کی عمر میں کینز فرانس میں مردہ پائے گئے ان کا انتقال پراسرار حالات میں ہوا۔ میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ واقعہ کی تحقیقات کی کسی شک و شبہ کے بغیر یہ ثابت ہوا کہ انہیں زہر دیا گیاتھا۔ ان کی بیوی سمیت زیر سماعت ملزمان امریکابھیج دیئے گئے۔ یہ معاملہ اب تک عدالت میں زیر التوا ہے۔فورنسک رپورٹ کے مطابق ’’وار پوائزن‘‘ نامی زہر دیا گیاتھا۔ ایک اور بھٹو بھی قتل ہوا تھا اور اس کی میت لاڑکانہ بھیجی گئی۔ مقدمے کی مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ قتل آج بھی ایک معمہ ہے ایک فرانسیسی سینئر انوسٹی گیٹر کے الفاظ میرے کانوںمیں گونج رہے ہیں کہ ’’ہم ملزمان کی روانگی روک نہیں سکتے اور چاہے جج صاحبان ٹرائل کا حصہ بننے سے ہی انکار کیوں نہ کردیں‘‘ ہماری رپورٹ کی سفارشات اب بھی ایف آئی اے میں دستیاب ہیں۔ تب ذوالفقار علی بھٹو کےبڑے بیٹے کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جب فوجی حکام نے بھٹو کو پھانسی دی گئی تو وہ بھی اپنے بھائی کی طرح بیرون ملک تھا دونوں بھائیوں نے اپنے وا لد کو بچانے کے لئے مل کر ایک بین الاقوامی مہم شروع کی جو ناکام رہی سندھ میں ان کی سیاسی مقبولیت بتدریج بڑھنے لگی تھی۔ 20؍ ستمبر 1996ء کو ایک مشتبہ پولیس مقابلے میں انہیں کراچی میں اپنے 6؍ ساتھیوں کے ساتھ گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی اور اپنے والد کا حقیقی پرتو تھیں۔ پوری قوم باپ کی طرح بیٹی سے بھی اتنی ہی محبت کرتی تھی ان کا سیاست دان بننے کا کبھی ارادہ نہ رہا لیکن انہیں خون کے سمندر میں کودنا اور تیرنے کے لئے لہروں سے لڑنا پڑا۔ بھٹو ورثے کی کتاب کا یہ ایک اور مستقل صفحہ ہے۔ بے نظیر بھٹو 21؍ جون 1973ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اپنے والد کی پھانسی کے وقت وہ پاکستان میں ہی تھیں انہیں پہلے گھر پرنظربند اور پھر والدہ کے ساتھ جلا وطنی پر مجبور کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کرنے وہ 1986ء میں پاکستان واپس آئیں 1988ء میں الیکشن لڑا اور جیتا ۔مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔وہ دوبارہ 1988ء تا 1990ء اور 1993ء تا 1996ء ملک کی وزیراعظم رہیں۔ تب وہ دوبارہ خود ساختہ جلا وطنی میں چلی گئیں جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت حاصل کی۔ ملک میں بحالی جمہوریت کے لئے جنرل پرویزمشرف کےساتھ سمجھوتہ کرنے کے بعد 2007میں وہ پاکستان واپس آئیں لیکن بدقسمتی سے 27؍ دسمبر 2007ء کو وہ راولپنڈی جلسہ عام سے خطاب کے بعد قتل کردی گئیں اس کے بعد 27؍ دسمبر نہ صرف محترمہ کی یاد کا دن بلکہ بھٹو خاندان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کابھی دن بن گیا۔ بھٹو خاندان کا لاڑکانہ میں آبائی قبرستان اس وقت نمایاں ہوگیا جب 1979ء میں اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی تدفین ہوئی۔ بعد ازاں دس سال بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہاں سپرد خاک کیا گیا۔ گڑھی خدا بخش لاڑکانہ کےبارے ہر چیز لاشعوری ہے خصوصاً اگر کوئی رات کے واپس بھٹو خاندان کی یادگار کی جانب سفرکرے ۔ 27؍ دسمبر طاقت کے مظاہرے کا سالانہ یوم بن گیا کسی اور جماعت کا اس علاقے میں کوئی حقیقی وجود نہیں ہےعوام کی یہاں بھٹو خاندان سے قرابت داری ہے۔ لاڑکانہ کے عوام کے سوالات اور خدشات درست ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور بے نظیر قتل پر لاڑکانہ کے عوام سے معذرت پاکستان کے دارالحکومت پر قرض ہے۔ 27؍ دسمبر کو میں نے لاڑکانہ میں چہروں پرکرب کے آثار دیکھے یہ درست ہے کہ لاڑکانہ نے اپنی قیادت کی میتیں وصول کیں اورا نہیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ میتیں صرف لاڑکانہ ہی کے لئے کیوں؟ عظیم جلسے سے اسلام آباد کے لئے سکھر جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ہم دارالحکومت میں رہنے والوں کے پاس لاڑکانہ کی دی گئی محبتوںا ور قربانیوںکا کوئی جواب نہیں ہے۔ ویٹرکا چہرہ اورا س کا سوال میرے ذہن میں گونج رہا ہے میں اپنا مضمون یہ کہتے ہوئے ختم کرتا ہوں کہ ’’میاں نوازشریف صاحب، خدا کا شکر ہے آپ اقتدار سے نکالے گئے ہو جبکہ ہمارے دو وزراء اعظم تودنیا سے نکال دیئے گئے‘‘

تازہ ترین