• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آزادی کو ستر برس سے زیادہ عرصہ ہوا ہے مگر فاٹا کے مظلوم عوام اب تک انگریزی سامراج کے بنائے ہوئے قانونی چنگل میں تڑپ رہے ہیں۔یہاں کے سیدھے سادھے لوگوں کوایف سی آر جیسے قوانین کے تحت اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بیوروکریسی کے من مانے فیصلوں کے خلاف کسی عدالت میں اپیل کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔یہ قانون استعماری باقیات کی ایک قبیح شکل ہے جس کا واحد مقصدانگریزوں کیخلاف پشتون مزاحمت کی بیخ کنی تھا، آج کے دور میں ایسے قوانین کا اطلاق مقبوضہ علاقوں جیسے فلسطین یا بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ہوتا ہے لیکن اپنے عوام کو اسطرح سامراجی قانونی اور تکنیکی طریقوں سے کنٹرول کرنا افسوسناک ہے۔ اگرچہ فاٹا کے عوام کی اکثریت خیبر پختونخواہ کیساتھ ادغام کی حمایتی ہے اور خطے کی تمام قابل ذکر جماعتیں اس عمل کی پر زور حمایت کرتی ہیں مگر اسکے باوجود علاقے کے باون لاکھ باشندوں کی تقدیر ہنوز غیر معین بھی ہے اور مشکوک بھی۔اگرچہ موجودہ حکومت نے پچھلے سال ایک کمیٹی قائم کرکے اس مسئلے کی جانب کافی سنجیدگی دکھائی جس سے اسکے دیرینہ حل کی امید بندھ گئی تھی،مگر اب حکومت اپنی ہی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے میں نہ صرف لیت و لعل سے کام لے رہی ہے بلکہ ایسا کرکے وہ ایک غیر ضروری تنازعہ پیدا کر رہی ہے جسکے خطے کی سیکورٹی پر کافی مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
فاٹا ایک ٹائم کیپسول میں مقفل رہا ہے جہاں اب بھی ماضی کے نو آبادیاتی نظام کی میراث نہ صرف نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے بلکہ بدلتی ہوئی دنیا دیکھ کر انکی بےاختیاری وقت گزر نے کیساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔امریکہ کے ’’وار آن ٹیرر‘‘ شروع ہونے سے نصف صدی پہلے بھی اس علاقے کو ’’علاقہ غیر‘‘ کہہ کر اس خطے اور اسکے باشندوں کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ جاری تھی،اپنے علاقے کو ’’غیر‘‘ گرداننے کی وجہ سےدونوں جانب سے خوف اور فاصلے کا ماحول پیدا ہوا جسکو کسی نے دور کرنیکی سنجیدہ کوشش نہیں کی، یہاں کے غریب اور پسے ہوئے عوام کو خوف و دہشت کی علامت بناکر ریاست کیلئے ایک مستقل خطرے کے طور پر پیش کیا گیا جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں میں فاٹا کے عوام کے لئے ذمہ داریوں کا کچھ احساس تو ہوا مگر اسکو ایک باضابطہ سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی کوششوں کو ہنوز سبوتاژ کیا جارہا ہے۔
لوگوں کی مشکلات کو مسلسل نظرانداز کرنیکی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ قبائلی عوام کے ساتھ برسوں امتیاز برتنا بھی ہے جسکو ’’دہشت گردی‘‘ کیخلاف جنگ میں مزید تقویت ملی، فاٹا سے مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این نےگزشتہ سال ایک اخباری انٹرویو میں اسکا احاطہ کچھ یوں کیا: ’’حکومتوں نے قبائلیوں کو متواتر نظر انداز کیا ہے اور سیاستدانوں کا ہر کام ذاتی منفعت پر ہی منتج ہے‘‘دہشت گردی کیخلاف ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری جنگ سے علاقے میں وسیع پیمانے پر بربادی ہوئی جس سے لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے، جس سے قبائلی عوام کو باقی ماندہ دنیا سے تعلق بنانے کا موقع ملا،اس سے قبائلی نوجوان اپنے حقوق کے بارے میں نہ صرف واقف ہو گئے بلکہ انکے حصول کیلئے منظم بھی ہو رہے ہیں،اس بات کا اندازہ ملک کے مختلف علاقوں میں فاٹا کے انضمام کیلئے ہونے والی دستخطی مہموں اور اجتماعات سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ زبردست عوامی حمایت کے باوجود حکومت اب تک اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ پاکستان کی ہر سیاسی یا آمرانہ حکومت کے حلیف مولانا فضل الرحمان فاٹا کے ادغام کے خلاف ہیںچونکہ وہ نہ صرف موجودہ حکومت میں ساجھے دار بلکہ اس کے مشیربھی ہیں اسلئے یہ تاثر بن رہا ہے کہ حکومت انکو خوش رکھنے کیلئے فاٹا کے باون لاکھ افراد کی مصیبتوں سے آنکھیں موند رہی ہے،یہ طرز عمل نہ صرف پاکستانی سیاست کے افسوسناک رویے کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ حکومتی ترجیحات کے بانجھ پن کا واضح ثبوت بھی فراہم کرتا ہے،پاکستانی سیاستدان عموماً اپنی ناکامیاں چھپانے یا اپنی ذمہ داریوں سے دامن بچانے کیلئے ’’مداخلت‘‘ کا رونا روتے ہیں جو بادی النظر میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔اس صورتحال میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا فاٹا کے انضمام کی حمایت میں حالیہ بیان کافی معنی خیز ہے اور سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو تقویت فراہم کرتا ہے جسمیں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنیکی سفارش کی گئی ہے، اسلام آباد میں قائم فاٹا ریسرچ سینٹر کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کےمطابق 74فیصد افراد خیبرپختونخوا میں ضم ہونا چاہتے ہیں،اگرچہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت انضمام کی حمایت تو کرتی ہے مگر اسمیں غیر ضروری تاخیر نہ صرف سیاسی اتھارٹی اور اسکی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے بلکہ ملک میں عدم استحکام کو بڑھاوا دے رہی ہے جس سے ممکنہ طور پر پاور ویکیوم میں اضافہ ہو گا جس سے عدلیہ پر دباؤ ہو گا جو پہلے ہی حکومت کو روزمرہ کا انتظام چلانے کیلئے وقتاً فوقتاً ہدایت اور مشورے دیتی رہتی ہے، ماضی میں عدالت نے ایف سی آر کے خلاف بلوچستان کے لوگوں کو امداد فراہم کی تھی کیونکہ صوبے کے کچھ حصوں پر اس کالے قانون کا اطلاق تھا 1993ءمیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے اسے کالعدم قرار دیکر واضح کردیا کہ ’’لوگوں کو ’’قبائلی‘‘ قرار دیکر انہیں شہریوں کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
فاٹا اور اس سے متصل افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں عالمی طاقتوں کی جانب سے ایک نئے ’’گریٹ گیم‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے جو اس خطے میں رہنے والوں کیلئے مستقبل قریب میں بہت سے خطرناک مسائل لے کر آئے گا،’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر ڈرون حملوں میں اب تک ہزاروں افراد کو بلا امتیاز نشانہ بنایا گیا جس میں سینکڑوں معصوم افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا،اس سے غم و غصّے کا ایک طوفان بپا ہوا جو دہشت گردی کے ناسور کی شکل میں سامنے آیا، آپریشن ضرب عضب نےاس چیلنج کو کافی حد تک ختم کرکے قانون کی عملداری بحال کی ہے اگر سیاستدانوں کی چپقلش اور معمولی مفادات کی وجہ سے فاٹا کے عوام کی تشویش کا تدارک نہیں کیا گیاتو فوجی آپریشن سے حاصل کردہ علاقائی سلامتی اور اسٹریٹجک توازن خطرے میں پڑ جائے گا۔
اصلاحات کے فروغ میں ناکامی سے نہ صرف انتہا پسندی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں بلکہ دہشت گرد بھی مضبوط ہو سکتے ہیں، گزشتہ ہفتے امریکی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دہشت گرد پاکستانی علاقوں پر قابض ہوسکتے ہیںاس اعلان کے فوراً بعد جنوبی وزیرستان میں نامعلوم گروپس کی جانب سے اشتہار منظر عام پر آئے جن میںمستقبل کے چیلنجز کے بارے میں ایک واضح اشارہ تھا۔
پس نوشت
فاٹا کو مرکزی دھارےمیں لانے کیخلاف جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کا کئی بار ذکر کیا جو وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شاذ و نادر ہی کرتے ہیں ،آپ نے حال ہی میں فاٹا کے عوام کو کشمیریوں کی طرح مظلوم قرار دیکر ڈیورنڈ لائن کو لائن آف کنٹرول کے ہم پلہ قرار دیا جو بین الاقوامی طور پر ایک تسلیم شدہ متنازعہ سرحد ہے جبکہ فاٹا میں جے یو آئی (ایف) کے سربراہ نے دعوی کیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوامیں ضم کرنیکی تجویز غیر ملکی ایجنڈے کا حصّہ ہے۔

تازہ ترین