• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018ء کا دوسرا دن ہے۔ نئے سال کی مبارک باد کے لین دین سے اب تک شاید آپ بھی اکتا چکے ہوں۔ مجھے نئے سال کی مبارک باد دینے سے معذور سمجھا جائے۔ مجھے تو یہ برس غالب خستہ حال کے دروازے پہ لگی پاڑ جیسا وحشت ناک معلوم ہوتا ہے۔ ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی، مقامی موسمی حالات اور عالمی صورت حال کے باعث پرواز ناہموار ہونے کے خدشات بہت زیادہ ہیں۔ میری رائے میں 2018 کا سال 1958ء اور 1988ء کی طرح آنے والے تیس برس کے لیے ہماری معیشت کے اشاریے متعین کرے گا، ہماری معاشرت کے خدوخال اس برس طے پائیں گے، ہماری سیاست کا نقشہ اس برس مرتب ہو گا۔ ہر بحران میں، محاورے کی حد تک، بہتری کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن گزشتہ کارکردگی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہم تو اچھے وقتوں میں آشفتہ سری کے جوہر دکھاتے آئے ہیں۔ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے غیر معمولی تدبر اور ادارہ جاتی استحکام نیز ہدف کے بارے میں یکسوئی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہماری کیفیت تو عابد علی عابد نے بیان کر رکھی ہے، جو غم دئیے نہ گئے تھے، وہ میں نے جا کے لیے… نتیجہ یہ کہ… اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا۔ حضرت بابا رحمتا کی خانقاہ پر مسلسل انصاف کی پکار سنائی دیتی ہے، چند آوازیں آپ بھی سنیے۔
اکیس دسمبر کو ضلع دیر میں 108 بلدیاتی نشستوں کے لیے انتخاب ہوا، 6813رجسٹرڈ خواتین ووٹروں میں سے ایک بھی عورت نے ووٹ نہیں ڈالا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق دباؤ ڈال کر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کرنے کا ثبوت نہیں ملا۔ عورتیں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلی ہیں۔ عجیب ملک ہے۔ یہاں کی عورتیں اپنی مرضی سے ووٹ کے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں، اپنی مرضی سے گرین کارڈ لینے کے لئے ریپ کروا لیتی ہیں، یہاں کے سیاسی کارکن اپنی مرضی سے گم شدہ ہو جاتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے عورتوں پر دباؤ تو نہیں ڈال سکتا۔ نیز یہ کہ ووٹنگ میں عورتوں کی کم از کم شرکت کے ضابطے کا اطلاق بلدیاتی انتخابات پہ نہیں ہوتا۔‘ دیر پاکستان کا وہ واحد خوش نصیب ضلع ہے جہاں جماعت اسلامی کو سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اگر ثبوت ہی درکار ہے تو جان لیجئے کہ ثمر باغ، داروڑہ اور جندول میں کل رجسٹرڈ ووٹر 17164ہیں۔ مردوں کے ووٹ 10397 اور عورتوں کے ووٹ 6813 ہیں۔ کیوں جناب، کیا قومی مردم شماری میں بھی عورتوں اور مردوں کی تعداد میں پانچ اور تین کا یہی تناسب ملا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ضلع دیر کی عورتیں شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ صاحب ثبوت ملنے یا نہ ملنے کا قضیہ تو کمرہ عدالت میں طے پاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ستر برس میں ہماری عدل گاہوں سے صادر ہونے والے فرمان قانون اور ثبوت کے کم ہی محتاج رہے ہیں۔ ہماری منشا ہو تو ہم کے نظریہ ضرورت پر ولیم بلیک اسٹون کے فرمودات کھود نکالتے ہیں۔ ہماری طبیعت مائل ہو تو بلیک ڈکشنری سے اثاثے کی تعریف اخذ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ کہ ملک ٹوٹ گیا، ہمیں ثبوت نہیں ملا۔ وزیر اعظم قتل کیے گئے، ہمیں ثبوت نہیں ملا۔ آئین توڑے گئے، ہمیں ثبوت نہیں ملا۔ قیاس آرائی میں البتہ ہم نے ایسا کمال پیدا کیا ہے کہ جسے خلق خدا ووٹ دے اسے بدعنوان قیاس کرتے ہیں۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔
ضلع دیر کی عورتیں تو گوناگوں مشکلات سے دوچار ہیں۔ پشاور سے قومی اسمبلی کی رکن عائشہ گلالئی اسلام آباد کے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے آئی تھیں۔ وہ اسٹیج پر بیٹھنے کی خواہشمند تھیں۔ تاہم جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے بتایا کہ قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے خاتون کو اسٹیج پر نہیں بٹھا سکتے۔ عائشہ گلالئی کو اسٹیج کے پیچھے کرسی دی گئی جس پر وہ ناراض ہوکر واپس چلی گئیں۔ یہ وہی خاتون ہے جو چند ماہ پہلے اپنے سر پر قبائلی رواج کی علامت پگڑی باندھ کر تصویریں کھنچوا رہی تھی۔ اپنے سابق سیاسی رہنما کو دو نمبر پٹھان ہونے کا طعنہ دے رہی تھی۔ اور اب ایک سیاسی جماعت تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہیں صاف بتا دیا گیا کہ ہمارے یہاں عورتوں کو اسٹیج پہ بٹھانے کی روایت نہیں ہے۔ صاحب روایت تو آپ کے باپ دادا کے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی بھی نہیں تھی۔ ہم نے پارلیمنٹ میں بیٹھنا پختون ولی سے نہیں سیکھا۔ ہمارے آبائواجداد نے یہ حق غیر ملکی قابض حکمرانوں سے لمبی لڑائی کے بعد جیتا تھا۔ جس قوم کے شعور نے طاقتور نوآبادیاتی حکمرانوں کی بالادستی نہیں مانی، وہ اپنا حق حکمرانی مقامی چھٹ بھئیوں کو کیسے بخش دے؟
دیر اور پشاور تو رواج کی اوٹ میں بیٹھ گئے، تاندلیانوالہ تو پنجاب کے قلب میں واقع ہے۔ خبر آئی ہے کہ مرضی کی شادی کرنے کے جرم میں پنچایت کے حکم پر ایک عورت کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا ہے۔ تاندلیانوالہ کے چک 429 سے آگے چلیے۔ نو برس تک اس ملک کے خود ساختہ حکمران رہنے والے صاحب بہادر اپنے سیاسی حریف بلاول بھٹو کو عورت اور عورت نما ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ اور مرد بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گویا آئین توڑنا اور پھر قانون سے ڈر کر بھاگ جانا ہی مردانگی کا پیمانہ ٹھہرا ہے۔ صاحب، بہادری کا تعلق عورت یا مرد ہونے سے نہیں، بلاول بھٹو تو شہید قبروں کے جھنڈ میں کھڑا ہو کر بھی انتقام کی بات نہیں کرتا۔ بلاول جیسا بہادر کون ہو گا۔
دیر کا مقامی ملا ہو یا پشاور کا سیاسی ماسٹر مائنڈ، تاندلیانوالہ کا چوہدری ہو یا کراچی کا یونٹ انچارج، عورت کو انسان سمجھنے سے یکساں طور پر قاصر ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جس جمہوریت کی تلاش جاری ہے اس کا پہلا اصول انسانی مساوات ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق 25 جنس کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرتی ہے۔ مگر ہم تو آئین کی بالادستی ہی سے منکر ہیں۔ بڑی دشواری یہ ہے کہ ہم کسی خلائی سیارے کی مخلوق نہیں ہیں اور نہ کسی دور دراز جزیرے پہ رہتے ہیں۔ حق خود ارادیت سے لے کر قومی خودمختاری تک اور جمہوریت سے لے کر معاشی ترقی تک آج کی دنیا چند اصولوں پر قائم ہے اور ہم تندہی سے ان اصولوں کی مزاحمت پہ کمربستہ ہیں۔ چار بنیادی انحراف ہم نے اختیار کر رکھے ہیں۔ ہم علم کے جدید تصورات قبول کرنے سے انکاری ہیں اور جدید علم کے ثمرات میں حصہ مانگتے ہیں۔ ہم جمہوریت کو اجنبی، ناپسندیدہ اور ناقص سیاسی بندوبست سمجھتے ہیں لیکن اپنے مفاد میں ایک سیاسی جماعت کھڑی کرنا اور انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ ہم عورت اور مرد کی برابری کے قائل نہیں ہیں۔ اگر عورت اور مرد برابر نہیں تو پھر کالا اور گورا کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ اگر جنگل کے آسیب ہی میں جینا ہے تو پھر امتیاز صرف عورت اور مرد کے فرق تک تو محدود نہیں رہے گا۔ مساوات اور امتیاز دو الگ دنیائیں ہیں، ہم اپنے من مانے منطقوں میں مساوات مانگنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ چوتھا انحراف قوم کی تعریف کا ہے۔ پچیس دسمبر کو قریب ہر قومی اخبار کے صفحہ اول پر کرسمس کی مبارک باد دی گئی۔ التزاماً مسیحی برادری کو مخاطب کیا گیا تھا۔ دو ستمبر 2017ء کے اخبارات میں عید الاضحی کی تبریک میں ایسا کوئی التزام نہیں کیا گیا تھا۔ جنس، شہریت اور عقیدوں کی درجہ بندی کرنے والے آج کی دنیا کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ ہم بھلے خود کو غیرت مند سمجھتے رہیں لیکن آج کی دنیا میں مساوات ہی غیرت کا پیمانہ ٹھہری ہے۔ گویا ہماری پسندیدہ لغت میں غیرت بھی لبرل فاشسٹ ہو گئی ہے۔ دیکھئے، فراق گورکھپوری یاد آ گئے
کہاں کا وصل، تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں..

تازہ ترین