• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ بے نظیر بھٹو قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی لیڈر تھیں ان کے قتل کو دس سال گزر چکے ہیں اس دوران ان کی پارٹی نے دوبار یا ڈیڑھ بار حکومت بھی کی اور یہ بھی پیپلز پارٹی کا ہی ریکارڈ ہے کہ اس نے اپنی حکمرانی کی مدت پہلی بار پوری کی اس دوران بی بی شہید کی شہادت کی بہترین تحقیقات بھی کرائی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا اس قتل کی تفتیش کے سلسلے میں کئی اور متعلقہ افراد بھی مار دئیے گئے (یا یوں کہا جائے کہ قتل کے ماسٹر مائنڈ نے تمام شہادتیں مٹا دیں) لیکن ان مارے جانے والوں کے قاتلوں کا بھی آج تک پتا نہیں چل سکا گزشتہ دنوں گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں بی بی کی برسی کے موقع پر انکے صاحب زادے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق صدر پرویز مشرف کی طرف واضح انگلی اٹھا دی ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو بچانے کے لئےحقائق چھپائے جارہے ہیں، اس کے جواب میں پرویز مشرف نے بہت واضح اور کھل کر بہت سی باتیں کیں اور بہت سے سوال اٹھا دئیے ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے مارے جانے سے سارا فائدہ آصف علی زرداری کو ہوا ہے، انکے کہنے کے مطابق وصیت تبدیل کر کے آصف علی زرداری نے اپنے حق میں کرلی یہی بات بی بی کی قریبی ساتھی ناہید خان نے بھی کہی تھی، جنرل مشرف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنی مضبوط اور محفوظ گاڑی کی چھت کس نے کٹوا کر اس میں کھڑکی کھلوائی تھی اور کس نے بار بار فون کر کے بی بی کو مجبور کیا کہ وہ گاڑی میں کھڑی ہو کر لوگوں کو الوداع کہیں۔ پھر اس فون کو کس نے غائب کردیا اور کس نے بی بی کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا، کس نے جائے وقوعہ کو دھلوایا، کس نے تمام ثبوت مٹائے، پھر سب سے اہم بات یہ کہ ان کی حفاظت اور سیکورٹی کی جن پر تھی وہ اس وقت وہاں کیوں موجود نہیں تھے، کیوں وہاں سے غائب ہوگئے تھے اور کیوں ان کا مقررہ روٹ تبدیل کیا گیا، خالد شہنشاہ جو زرداری کے جیل کے ساتھی بھی تھے اسے کس نے قتل کرایا اور پھر اسکے قاتل کو بھی کس نے مروا دیا، جنرل مشرف نے اپنے انٹرویو میں وضاحت سے آصف علی زرداری کو بی بی کے قتل میں ملوث کیا ہے گو کہ اس بارے میں بار بار مذاکرے اور بحث مباحثے ہوچکے ہیں لیکن دس سال گزرنے کے باوجود معاملہ وہیں کا وہیں ہے یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے بلاول بھٹو کا کہنا بھی کسی حد تک درست ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے نہ تو خود اپنے ہاتھوں سے محمد احمد قصوری کو گولی ماری تھی نہ اس وقت وہ وہاں کہیں قرب و جوار میں موجود تھے لیکن چونکہ اس وقت وہ حکمراں تھے انکی ذمہ داری تھی اپنے دوستوں اور دشمنوں کی حفاظت کرنا اس طرح بی بی بے نظیر کے قتل کے وقت اصل حکمراں جنرل مشرف تھے اس لئے بلاول کا انکی طرف انگلی اٹھانا بھی غلط نہیں ہے ۔ جبکہ جنرل مشرف کے بیان میں بھی بڑا وزن محسوس ہوتا ہے بلاول بھٹوایک ملک گیر جماعت کے چیئرمین ہیں انہوں نے یونہی ہوا میں تیر نہیں چلایا ہوگا۔ جنرل مشرف جو اب جماعت بناکر سیاست میں وارد ہوچکے ہیں اب ان کی پوزیشن تبدیل ہوچکی ہے وہ اس وقت سیاسی اور اخلاقی طور پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سینڈوچ بن رہے ہیں انکے ایک طرف ن لیگ اپنی پوری طاقت و توانائی سے کھڑی ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی موجود ہے۔ بات ہورہی تھی مشرف کے الزامات کی اور بلاول کے الزامات کی اب دیکھنا یہ ہے کہ ان الزامات کی کیا حیثیت بنتی ہے یا پھر وہ ہی رات گئی بات گئی۔ موجودہ حکومت کو چاہئے، جو مشرف اور آصف زرداری کی حریف اور مخالف ہے ہمت کرے اور اس دو طرفہ الزام تراشی کی تحقیقات کرائے اورحقیقت عوام و خواص کے سامنے پیش کرے۔ عوام کی دلچسپی اور ہمدردیاں عدالتی فیصلہ اور اس کے ردعمل سے میاں صاحب اور ان کی جماعت سے کم ہوئی ہیں اور آنے والے الیکشن میں خطرہ ہے کہ وہ اس کامیابی کو ترسیں گے جس کی انہیں امید قوی ہے، کہنے کو تو کہنے والے یہ تک کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نیب کے مقدمات سے خوفزدہ ہو کر نہ صرف سیاست سے دست بردار ہونے کو تیار ہیں بلکہ وطن عزیز بھی چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ وطن عزیز میں ہونے والے شفاف انتخابات تو صرف بیانات کی حد تک ہی ہوتے ہیں، ہوتا وہی ہے جو خفیہ ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں اسلئے ضروری ہے ہر سیاسی جماعت پوری ایمان داری اور دیانت سے آنے والے انتخابی عمل کے بارے میں سوچے سمجھے اور اپنے لائحہ عمل کی تیاری کرے تاکہ عوام اس کی طرف راغب ہو اور ملک کو ایک مخلص اور محبت وطن قیادت میسر آسکے، وقت کم اور کام زیادہ ہے، اب وقت آگیا ہے سر دھڑ کی بازی لگانے کا۔ انگلیاں اٹھانے اور الزامات لگانے سے کام نہیں چلے گا اب وقت ہے کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا، ورنہ ایسے سیاست دانوں اور دانشوروں کی کمی نہیں جو زبردستی فوج کو دعوت دے رہے ہیں اور موقع فراہم کر رہے ہیں جبکہ وہ واضح اور دو ٹوک انداز میں کہہ چکی ہے کہ انہیں سیاست میں نہ دھکیلا جائے انہوں نے اپنی قوت اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے وقف کر رکھی ہے سیاست، سیاستدانوں کا کام ہے انہیں ہی کرنے دیا جائے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ اہل سیاست نہیں چاہتے کہ آنے والی حکومت سیاسی ہو بہرحال اللہ تعالیٰ بہتر کرنے والا ہے، حکمران جماعت اور ،اسکے قائدین پر اس وقت بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے انہیں اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کیلئے سوچنا اور عمل کرنا ہوگا ورنہ حکمران جماعت سارے کے چکر میں آدھے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی خواب دیکھنے کا وقت گزر چکا ہے، تعبیر کا وقت آپہنچا ہے اگر یہ وقت بھی ذاتی مفادات کے تحفظ میں نکل گیا تو پھر سوائے ہاتھ ملنے کے، کچھ ہاتھ نہیں آنیوالا، اللہ ہماری، ہمارے وطن عزیز کی ہر طرح سے، ہر طرف سے حفاظت فرمائے، اللہ ہر چیز پر، ہر طرح سے قادر ہے۔

تازہ ترین