• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک نئے این آر او ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے سے اس طرح کی افواہوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حالات 2007 سے بہت مختلف ہیں جب جنرل پرویز مشرف نے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس وقت ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے رہنما جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن حکومتی عتاب کا شکار تھے۔ سب سے بڑی وجہ وکلا کی عدلیہ بحالی کی تحریک جو دن بدن شدت پکڑتی جا رہی تھی اور بین الاقوامی سطح پر خوف تھا کہ کہیں پاکستان میں ریاستی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار نہ ہو جائے۔ اس وقت وسیع تر سیاسی خلا محسوس کیا جا رہا تھا جس کو پر کرنے کے لئے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا داخلہ ناگزیر قرار دیا جا رہا تھا۔ آج کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہے : بظاہر ملک میں کوئی سیاسی خلا نظر نہیں آتا کیونکہ حزب مخالف کی پارٹیاں سیاسی سرگرمیاں آزادی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور انتخابات کے ذریعے حکومت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
پچھلی مرتبہ کا این آر او عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی مدد سے ہوا تھا۔ اگرچہ اس وقت جنرل مشرف اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات موجود تھے لیکن پاکستان میں دہشت گردی اور افغانستان میں جنگ کی وجہ سے واشنگٹن میں پاکستانی ریاست کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی تھی۔ اس وقت امریکہ پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا تھا اور اس کے لئے ہر قسم کی امداد بھی فراہم کر رہا تھا۔ اس پس منظر میں جب وکلا کی عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک زور پکڑتی گئی تو امریکہ میں اسے تشویش کی نظر سے دیکھا گیا۔ امریکہ کو خوف تھا کہ کہیں پاکستان میں انتشار اتنا نہ بڑھ جائے کہ انتہا پسند ریاست کے اداروں پر قبضہ کر لیں۔ امریکیوں کی نظر میں سیاسی اقتدار کی منتقلی ناگزیر ہوتی جا رہی تھی لیکن دونوں بڑی سیاسی جماعتیں (پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ملکی سیاست میں حصہ لینے سے قاصر تھیں۔ اس وقت تک تحریک انصاف وغیرہ سیاسی منظر نامے کا حصہ نہیں تھیں۔ غرضیکہ زمینی حالات ایسے تھے کہ پاکستان میں خوفناک سیاسی خلا پایا جاتا تھا۔
وکلا تحریک کے نتیجے میں جنرل مشرف کی حکومت پر گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی اور ان کی جگہ لینے والے سیاسی رہنما جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ بر سبیل تذکرہ وکلاکی تحریک سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو (شہید) واشنگٹن کے چکر لگاتی رہتی تھیں لیکن ان کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاکستان ڈیسک تک بھی رسائی حاصل نہیں تھی۔ لیکن جب امریکیوں پر واضح ہو گیا کہ جنرل مشرف کا جانا ٹھہر گیا ہے تو انہوں نے فوری طور پر بینظیر بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور انہیں واپس بھیجنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ امریکیوں کے لئے انتہا پسندوں سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لئے نظام کی حامی سیاسی پارٹیوں کی واپسی لازم تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مروجہ نظام کی حامی تھیں اور ان میں امریکہ مخالف رجحان بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ اس لئے امریکہ کو یہ دونوں پارٹیاں قابل قبول تھیں۔ اب حالات صریحاً بدل چکے ہیں۔ اب خارجی عناصر کا پاکستان کی سیاست میں عمل دخل تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ پاکستان سے تقریباً لا تعلق ہو چکا ہے اور اب واشنگٹن میں ایسے لوگ نہیں ہیں جن کو پاکستانی سیاست کے بارے میں کوئی خاص آگاہی ہو۔ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ بیگانگی کا یہ سبب بھی ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندوں کے قبضے کا خوف کم ہو چکا ہے۔ جس طرح سے فوج نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ اگر فوج ارادہ کر لے تو وہ ہر نوع کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا قلع قمع کر سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں امریکہ کو پاکستان میں کوئی سیاسی خلا بھی نظر نہیں آتا اور وہ پاکستان کی کسی بڑی پارٹی کو اپنے مفادات کے منافی نہیں سمجھتا: امریکیوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلم لیگ (ن) کی جگہ تحریک انصاف حکومت میں آجائے کیونکہ ساری پارٹیوں کا امریکہ کے بارے میں ایک جیسا رویہ ہے۔ کوئی بھی پارٹی بائیں بازو کی یا سامراج دشمن نہیں ہے جس سے امریکہ کے کان کھڑے ہوں۔
پاکستان کی داخلی سیاست کا بھی سیاق و سباق بدل چکا ہے۔ اب ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف متحد نہیں ہیں بلکہ وہ ایک سویلین حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی نا اہلی پر جن اداروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں وہ عوام میں بہت مقبول ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ کا کردار کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں عدلیہ کی حامی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف وکلا کی طرح کی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے ساتھ کسی طرح کا این آر او کرے۔
اب پاکستان میں این آر او ہونے کے امکانات اس لئے بھی معدوم ہیں کہ پہلے ہی کچھ سیاسی پارٹیوں کو کافی رعایتیں دی جا چکی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والا کڑا احتساب روک دیا گیا ہے اور تحریک انصاف سے جہانگیر ترین کی قربانی لے کر اس کی جان بخشی کردی گئی ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) کو بھی حدیبیہ کیس نہ کھول کر رعایت دی جا چکی ہے۔ اب ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی ایک ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ اب پاکستان کے حکمران طبقے کی آپسی جنگ کا معاملہ ہے اور اس میں جیتنے یا ہارنے والے سویلین ہی ہوں گے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب مشرف کے دور جیسا سیاسی خلا نہیں ہے جسے پر کرنے کے لئے این آر او قسم کا انتہائی قدم اٹھایا جائے۔

تازہ ترین