• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Trumps Ideology Is In Danger Of Peace

جب دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کو منتخب کیا تو ااس سے امن کو پہلا دھچکا ،ان دونوں ممالک کے ساتھ اسرائیل کا اشتراک دنیا کے کروڑوں امن پسندوں کیلئے مزید مہلک ثابت ہوا۔جب ہر کوئی سال نو کی مبارک بادیں وصول کر رہا تھا تو عین اس وقت امریکی صدرٹرمپ نےپاکستان پر نئے سال کا ’’بم‘‘ گرا دیا۔

مقام حیرت ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کو اپنی خارجہ پالیسی ان دنوں ٹویٹر کے ذریعےچلانی پڑ رہی ہے ،امریکی صدر کو شائد کوئی بھی سوشل میڈیا پر نہ پچھاڑ سکے۔ایک ٹویٹ کے ذریعے جنگ تو برپا کی جا سکتی ہے لیکن امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے پہلے تو امریکیوں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیےجنہیں سب سے بڑا دھچکا تب لگا جب ڈونلڈ ٹرمپ کرسی صدارت پر متمکن ہو گیا اور تجربہ کار ہیلری ہار گئی۔دنیا کی سب سے بڑی لبرل جمہوریت نے ایک عورت کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے حق میں کبھی ووٹ نہیں دیا جبکہ پاکستان میں ایک خاتون محترمہ بینظیر بھٹو دو دفعہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں تو پھر صدریا وزیراعظم کے انتخاب کے لئے کونسا ملک زیادہ اعتدال پسند سوچ کا حامل ہے۔

ٹرمپ کی صدارت میں اظہاررائے کی آزادی سب سے پہلے نشانہ بنی ۔میڈیا کے ساتھ اس کی جنگ صدر منتخب ہونے سے قبل ہی شروع ہوچکی تھی۔اس نے جو کہا وہ پاکستانیوں کیلئے نئے سال کا تحفہ ہے ’امریکہ نے 15سال میں پاکستان کو 33ملین ڈالر زکی امداد دے کر بیوقوفی کی ،اس کے بدلے پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے جھوٹ اور دھوکے کے، پاکستانی ہمارے رہنمائوں کو پاگل سمجھتے ہیں،وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جبکہ ہم افغانستان میں انہیں ختم کررہے ہیں ’’نو مور‘‘۔ سال سالہا ’’ڈو مور‘‘ پر عمل کرنے کے بعدپاکستان کی جانب سے چند دن قبل کہے جانے والے ’’نو مور‘‘کے جواب میں ٹرمپ کا یہ ’’نومور‘‘ سامنے آیا ہے۔

یقیناً ہم نے بہت ساری غلطیاں کی ہیں اور ان میں شائد سب سے بڑی غلطی افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی تھی جو کئی عشرے پرانی ہے۔ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1980ء میں امریکہ کی سوویت افغان جنگ سے قبل پاکستان بھی ایک اعتدال پسند ملک تھا۔ اس جنگ نے پاکستان کو 50لاکھ مہاجرین، بندوق اور منشیات کا کلچر ، دہشت گردی اور انتہا پسندی ملی ۔ ہزاروں غیرملکی جن میں عرب بھی شامل تھے امریکہ کی جنگ لڑنے کیلئے پاکستان میں بھیجے گئے۔

اسامہ بن لادن بھی ان میں سے ایک تھا جو 9/11کا ماسٹر مائنڈ اور مطلوب ترین مجرم رہا۔ امر یکیو ں کے بجائے پاکستانی بیوقوف ہیں جوامریکیوں پر یقین کرتے ہوئےآزادی کے فوراًبعد ان کے اتحادی بن گئے۔امریکیوں کی تقلید میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیںکیمونسٹ پارٹی آف پاکستان پر 50کے عشرے میں جبکہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر 70کے عشرے میں پابندی لگا دی گئی۔ اب ہمارا جواب کیا ہونا چاہئے؟

ہماری کمزریوں کے باوجود ہمارا جواب ٹرمپ کی طرح بیوقوفانہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں اور حال ہی میں ہمیں اقوام متحدہ میں اچھی حمایت ملی ہے جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب بھی دنیا نے ہمیں سپورٹ کیا تب ہی امریکہ نے ہماری مخالفت کی ۔

وزیراعظم عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں سول و عسکری قیادت ٹرمپ کے الزامات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لے گی۔ اس اہم مسئلہ پر حکومت اور حزب اختلاف ایک صفحے پر ہیںتاہم اس کے باوجود ہمارے اپنے مسائل ہیں لیکن یہ اہم وقت ہے کہ ہم افغانستان سے متعلق اپنی عشروں پرانی پالیسی میں تبدیلی کریں۔

خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کریں۔ پاکستان کو نہ کسی پراکسی کا حصہ بننا چاہئے اور نہ ہی کسی کے خلاف پراکسی اختیار کرنی چاہئے۔ امریکہ ہیروشیما، ناگاساکی، شام، عراق، افغانستان اور لیبیا جیسی مہم جوئیوں کی تاریخ رکھتا ہے۔ جب امریکی مفادات کی بات آتی ہے تو انسانوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ ہم 1977 اور 1979ء کے سال کیسے بھول سکتے ہیں جب امریکہ نے اپنی پالیسیوں سے روگردانی کی پاداش میںہمارے منتخب وزیراعظم کو ’’عبرتناک مثال‘‘بنا دیا تھا ۔ ہمارا جواب بالکل شائستہ ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان میں کوئی ’’ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گزشتہ 15یا 30سال میں کیا قیمت چکائی یا پھر 1950کے عشرے سے امریکیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈالیں تب سے آج تک ہم نے اس دوستی کی کیا قیمت چکائی ہے۔

یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ امریکی صدر ہماری گزشتہ 40سال کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کر رہا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں آمریت کی حمایت کی۔ چاہے وہ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں، ضیاء الحق یا جنرل مشرف ہوں۔ پاکستانی عوام ابھی تک بھٹو کا تختہ الٹے جانے میں مبینہ امریکی کردار کو نہیں بھولے۔ اگر امریکہ نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا، عراق یا ایران کے خلاف قرارداد کی مخالفت نہیں کی تو اس نے یروشلم پر قرارداد کی مخالفت کیوں کی؟

دنیا 9/11کے بعد یقیناََ بہت بدل چکی ہے، 9/11 جس میں 3ہزار لوگوں نے اپنی جانیں گنوادیں تاہم ایک پاکستانی جس کا نام ’’ہمدانی‘‘ تھا اس نے وہاں لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانی جانیں گنوا چکے ہیں، پھر بھی یہ جنگ جاری رہنی چاہئے کیونکہ ہم غیر ریاستی عناصر کے پھلنے پھولنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ڈرون حملوں سے بھی باخبر رہنا ہے۔

پاکستان کو ڈرون حملوں اور معاشی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور مکمل ختم نہیں ہو سکا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب دنیا امن کی کوششیں کر رہی ہے دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ٹرمپ اور مودی جیسوں کے زیر کمان ہیں۔ 

تازہ ترین