• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں رونگٹے کھڑے کرنے والا انکشاف ہوا ہے کہ دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لئے جو بوسٹن انجیکشن لگائے جاتے ہیں ان سے بھینسوں کو کینسر ہو جاتا ہے جس سے وہ مر رہی ہیں اور ان کا دودھ استعمال کرنے والے لوگ بھی کینسر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈائریکٹر لائیواسٹاک پنجاب نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ پاکستان میں ڈبے کے تمام دودھ جعلی ہیں۔ ان میں کینسر کا سبب بننے والا فارملین کیمیکل موجود ہوتا ہے۔ ڈبے کے دودھ میں فارملین کے علاوہ یوریا کھاد اور پاوڈر بھی ملایا جاتا ہے اور کوئی کھانا فارملین کے بغیر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کینسر کے موذی مرض کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کانگو وائرس والے ممالک سے گوشت درآمد کیا جاتا ہے۔ پکڑا جاتا ہے پھر بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس کی روک تھام کا کوئی نظام موجود نہیں۔ دیگر صوبوں نے بوسٹن انجیکشن پر پابندی لگائی مگر سندھ نے حکم امتناعی لے لیا۔ مارکیٹ میں بہت سی غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی ادویات مل رہی ہیں جو نہایت خطرناک ہیں۔ اجلاس میں پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل نے بھی بریفنگ دی۔ تجویز دی گئی کہ ویٹرنری کے لئے الگ مکمل سسٹم ہونا چاہئے جس کے تحت رجسٹریشن اور جانچ پڑتال کی جائے۔ کمیٹی نے اگرچہ پنجاب میں بھی بھینسوں کو لگائے جانے والے بوسٹن انجیکشن پر پابندی کی سفارش کی ہے مگر معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اصلاح احوال کی کوشش نہ کی گئی تو اگلے تین سال میں صورت حال بہت خراب ہو سکتی ہے۔ سندھ کے پاس تو ویٹرنری ریگولیٹری سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں نہ لیبارٹری سہولتیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے آلودہ پانی کے بارے میں سختی سے نوٹس لیا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اسی طرح کا نوٹس کینسر کا سبب بننے والے ڈبوں کے دودھ کے بارے میں بھی لیا جائے۔ صوبائی حکومتوں کو کینسر اور کانگووائرس والے دودھ اور گوشت کے علاوہ کیمیکل ملے انجیکشن اور غیر قانونی ادویات پر بھی پابندی لگانی چاہئے ۔

تازہ ترین