• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں چونتیس شوگر ملیں ہیں سب کی سب شوگر ملوں نے اپنی چمنیاں بند رکھی ہوئی ہیں ۔ سینکڑوں ہزاروں چھوٹے بڑے زمیندار ، آبادگار، اور لاکھوں ہاری خواتین، اور مرد سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ گنے کی کاشتکاری سے وابستہ ہزاروں چھوٹے آبادگار اور لاکھوں کسان یا کاشتکار فاقوں کی نوبت پر آ پہنچے ہیں۔ شوگر ملز مالکان نے انکی تیار فصل گزشتہ ایک سال سے اٹھانے سے انکار کیا ہوا ہے۔ آبادگار بھی احتجاج پر ہیں تو مل مالکان بھی بغاوت پر اترے ہوئے لگتے ہیں، ایک بڑے اقتصادی تشدد پر۔ لامحالہ اب تو سندھ ہائیکورٹ کے ان احکامات کہ وہ مقررہ سرکاری نرخ ایک سو بیاسی روپے من کے حساب سے کاشتکاروں آبادگاروں سے گنا خریدیں لیکن بجائے اسکے کہ ملز مالکان سندھ کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات پر عمل کریں انہوں نے کارخانوں کو ہی تالے لگادئیے ہیں۔
سندھ میں اصل حکومت شوگر ملز مالکان کی ہی ہے۔ شوگر ملز مالکان پھر وہ ، حکومت سے تعلق رکھتے ہوں حزب مخالف کے وڈیروں یا ٹٹ پونجیوں سے بدلے ہوئے شوگر ملز مالکان ہوں، کہ ریٹائرڈ افسر، زرداری کہ ذوالفقار مرزا کم از کم گنے کے بائیکاٹ میں ایک ساتھ ہیں۔ گنے کے آبادگاروں کاشتکاروں کے استحصال اور منافع پرستی میں ایک ہیں ، یکجا و یکجہت ہیں۔ یہ سندھ ہے۔ یہاں کوئی کنگ آف مینگو یا آموں کا بادشاہ تو کوئی گنے کا تو کوئی شوگر ملز یا چینی کا بادشاہ۔ ویسے تو خدا بادشاہ لیکن سندھ پر چینی کا کون بادشاہ؟ پبلک سب جانتا ہے۔ چینی کا بادشاہ تو ہے پر بدقسمتی سے سب اس سے ڈرتے ہیں۔ سندھ میں اسکا کھوٹا سکہ بھی رائج الوقت ہو کر چلتا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ سندھ کے آئی جی کے متنازع تبادلے کا معاملے کے کھرے بھی شوگر ملز کی سیاسی اقتصادیات تک جاتے تھے۔ شاید اب بھی جاتے ہوں۔ سندھ میں شوگر ملز کے بادشاہ کی ملوں پر متعین منتظم بھی وزیر اعلیٰ سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔ اس پیر سے بھی جسکے آگے بینظیر دو زانو فرش پر بیٹھی تھی لیکن ایک دفعہ سکھر لاڑکانہ پرواز کے دوران قومی ایئر لائن پر سندھ میں شوگر بادشاہ کے منتظم کی نشست اس پیر کو دینے پر پولیس اسکی حویلی جا پہنچی تھی۔تو خیر جتنے منہ اتنی باتیں۔ کہتے ہیں سندھ میں چونتیس شوگر ملز ہیں ان میں اٹھارہ شوگر ملیں آصف علی زرداری کی ہیں۔ مجھے اٹھارہ کا تو پتہ نہیں نو کا ضرور ہے۔ یہ بھی ضرور جانتا ہوں کہ جس پارٹی نے اپنے اقتدار میں چینی اور آٹے کی راشن شاپ سے سیاسی کرپشن شروع کی تھی وہ ضیا کے دور کے بعد والے اقتدار میں شوگر ملوں کی سیاسی اقتصادیات تک جا پہنچی۔ شوگر ملز کس کس کی؟ یہاں تک کہ سابق آرمی چیف کی بھی ایک شوگر مل کہلائی۔ ایک شوگر مل کا مطلب ایک قومی اسمبلی کا تمام حلقہ۔
لیکن شوگر ملز مالکان کا استدلال یہ تھا کہ وہ امسال فصل کا گنا اس لیے نہیں اٹھا سکتے کہ ابھی انکے گوداموں میں کوئی بارہ لاکھ ٹن چینی پچھلے سال سے پڑی ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومت کی طرف سے سبسڈی یا امدادی رقم نہ ملنے پر وہ یہ چینی ایکسپورٹ بھی نہیں کرسکتے۔
مجھے ایک درمیانے زمیندار اور گنے کے کاشتکار دوست نے بتایا کہ گنے کی کاشت پر فی ایکڑ پینسٹھ ہزار خرچ ہوتا ہے اور سنتے ہیں کہ اسی من گنے میں سے پانچ کلو چینی نکلتی ہے۔ اور گنے کی فصل ایسی ہے کہ اسے کاٹ کر ذخیرہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سندھ میں بارہ لاکھ ایکڑ سے بھی زائد گنے کی فصل سال بھر سے زائد عرصے سے گل سڑ رہی ہے۔
سندھ حکومت کہتی ہے کہ اس نے۔ شوگر مل کے مالکان کو انکے گوداموں میں ذخیرہ کی ہوئی چینی کی بیرون ملک ایکسپورٹ کیلئے پندرہ روپے فی کلو سبسڈی دی ہوئی ہے یہ وفاقی حکومت ہے جو سندھ کے شوگر ملز مالکان کو سبسڈی نہیں دے رہی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے ان دنوں یہ بھی بیان دیا ہے کہ سندھ کے شوگر ملز مالکان گنا پنجاب سے خرید رہے ہیں کہ انکو سندھ کے حکومتی نرخ سے سستا پڑ رہا ہے۔ یعنی کہ گنے اور چینی پر بھی مرکز اور صوبے کی تکرار، اور سندھ پنجاب مسابقت کے بیچ سندھ کا کاشتکار اور آبادگار گنے کی طرح ہی چھیلا جارہا ہے۔ زرعی سماج کے جاننے والے جانتے ہیں کہ گنے کا چھیلا جانا اور گنے کی فصل کی کٹائی کتنا مشکل عمل ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ پس منظر میں گنے کی سندھ میں کاشت میں کہیں کہیں کتنی بیگار یا جبری محنت شامل ہے؟ لیکن شوگر ملز مافیا کے خلاف اکثر چھوٹے بڑے زمیندار، آبادگار یا کاشتکار اور کسان سراپا احتجاج سڑکوں پر ہیں۔ چند ہفتے قبل جب سندھ کے گنے کے احتجاجی آبادگار بشمول کسان خواتین اور مرد شوگرملوں کی تالہ بندی کے خلاف کراچی میں ’’ریڈ زون‘‘ جانا چاہتے تھے تو ان پر زبردست لاٹھی چارج کیا گیا ، آنسو گیس اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال بھی۔ یہ شوگر مل مافیا کا راج خود کو آنسو گیس کے ذریعے چلا رہا ہے۔ یہ سندھ میں حکومت بالکل ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں کی یاد دلاتی ہے جسے ’’لاٹھی گولی کی سرکار‘‘ کہا جاتا تھا۔ آبادگار ہوں کہ پرائمری ٹیچر، خواتین کسان کہ خواتین ٹیچر ’’ریڈ زون ‘‘ میں محفوظ حکمران کیا واقعی تھر تھر کانپے جاتے ہیں یا طاقت کے نشے میں انتہائی غلطان ہیں۔ یہ ہاتھوں میں گنا لیے ہوئے آبادگاروں اورہاریوں سے اتنا ڈر گئے ہیں! یاد ہے جب بھٹو حکومت کے دوران احتجاجی اساتذہ کے ساتھ یکجہتی میں نکل کر آنے والے معراج محمد خان کا سر پولیس نے لاٹھی چارج میں پھاڑ دیا تھا؟ جناح صاحب کا مقبرہ گواہ ہوگا۔ ’’گنے والوں کا احتجاج خود مل مالکوں کے حق میں ہے کیونکہ اس سے وہ اپنی سبسڈی بڑھوانا چاہتے ہیں‘‘ ایک آبادگار کی رائے تھی جبکہ کئی آبادگار خود کو احتجاج میں جلانے کا انتباہ بھی کر رہے ہیں ۔
اب جب ملک کےاینکرز حضرات و خواتین اور میڈیا کا بڑا حصہ امریکی صدر ٹرمپ کے محض ایک ٹوئٹ پر دشت میں گھوڑے دوڑا رہا ہے تب سندھ میں قومی شاہراہ پر ہزاروں گنے کے آبادگار ٹھٹھہ سے گمبٹ تک سراپا احتجاج ہیں ۔ ان میں ہائی پروفائل خاتون وڈیری نازوبھی شامل ہے جس کا جرتمندانہ کردار فلم ’’مائی پیور لینڈ‘‘ میں سہائی ابڑو نے ادا کیا ہے۔ تینتیس ارب ڈالر کے قضیے میں کس نے جانا کہ سندھ کے گنے کے ان کاشتکاروں کا ایک ہفتے میں شاید ایک ارب روپیہ ڈوب چکا۔ آج وہ کہاوت سمجھ میں آئی کہ کیسے کسی کے چینی کے جہاز ڈوب جاتے ہیں۔

تازہ ترین