• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کو اپنی پالیسی واضح کرنے یا کسی خاص معاملے پر بات کرنے کے لئے خاص قسم کی پریس کانفرنسز، انٹرویوز اور پروگراموں کا اہتمام کرنا پڑتا تھا مگر اب ایک ٹویٹ وہ تمام کام کر دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے ٹویٹ نے پوری دنیا سمیت پاکستان کی فضائوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ان کا لہجہ غالب کے محبوب کا سا ہے جو بہت غصے والا اور منہ پھٹ ہے۔ غالب نے کہا تھا:
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالب نے اپنے محبوب کی تلخ کلامی کی پروا نہ کرنے کی وجہ اس کے خوبصورت شیریں لبوں کو قرار دیا۔ مطلب ادائیگی میں شیرینی مل جائے تو تلخی محسوس نہیں ہوتی۔ غالب نے اپنی شاعری میں رقیب کو خاص اہمیت دی ہے اس لئے کہ دونوں کی توجہ کا محور ایک ہی محبوب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے درمیان بھلے چپقلش اور حسد کا معاملہ ہو مگر تعلق ضرور ہوتا ہے۔ بہرحال اس تناظر میں ہم امریکہ کے صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کی توجیہہ ہر گز پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ محبوب اور رقیب کے معاملے میں غیرت اور بقا ہر گز شامل نہیں ہوتی۔ وہاں تو ذات کی نفی کی بات کی جاتی ہے اور محبوب کے در پر پڑے رہنے کو افضل قرار دیا جاتا ہے جب کہ ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسا کرنے والے اپنی شناخت کو دھبہ بنا لیتے ہیں۔ شاید پہلی بار امریکہ کو ایسا صدر میسر ہوا ہے جو سچ بولتے ہوئے سیاسی اور ڈپلومیٹک زبان اختیار نہیں کرتا۔ سو ہمیں ٹرمپ کے اس بیان سے خوش ہونا چاہئے کہ اس کے ذریعے حکومت کی سوچ کھل کر سامنے آ گئی ہے اور شایداس سے ہمارے غلامانہ ذہن کو بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اور قرضوں کے انبار لگانے کی بجائے خود کچھ کرنے کا خیال آئے۔
امریکہ نے کچھ برا نہیں کیا۔ ہر ملک اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو بہتر زندگی مہیا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ سپر پاور بھی گائوں کے اس چوہدری کی طرح ہوتی ہے جو کسی کو اپنے برابر آنے کی اجازت نہیں دیتی اور سر اٹھانے والے کو کچل کر مثال قائم کرتی ہے۔ روس کو سبق سکھانا مقصود تھا۔ مسلم ممالک کی عیاش قیادت کے قبضے سے وسائل کو حاصل کرنا ضروری ہو گیا تو اس کے لئے پلاننگ کرنا اس کا حق تھا مگر اس پلاننگ کا حصہ بننے والے مسلم ممالک اور اسے راستہ دینے والے لوگ اصل مجرم ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد ترکی نے اسمبلی ممبران کی آرا کے مطابق امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کر دیا تو کیا ہوا؟کچھ بھی نہیں مگر یہاں پاکستان میں اس مقصد کے لئے ایک مکامار ڈکٹیٹر کو حکم ملا تو اس نے ایک لمحہ تاخیر نہ کی۔ نہ صرف اڈے دیئے بلکہ براہِ راست جنگ کا حِصّہ دار بن گیا۔ معصوم ذہنوں کو عقیدے کے نام پر تخریبی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا گیا۔ جس ملک میں ہر گھر سے بھٹو نکلتا تھا وہاں سے اذیت پسند برآمد ہونے لگے۔ ڈرون کے تجربے کے لئے بھی اِسی سرزمین کی لاوارث مخلوق استعمال ہوئی۔ ایک مطلوبہ بندے کے ساتھ معصوم بچوں اور عورتوں کو لقمۂ اجل بنانے کی مثالیں رقم ہوئیں۔ اتنی دور سے آگ لگانے کے لئے وسائل اور پیسہ مسلم ممالک کے ذریعے ہی پاکستان بھیجا جاتا رہا۔ طاقتور ہمیشہ طاقتور سے مذاکرات اور لین دین کی بات کرتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ ابھی تک جمہوریت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکی اور پھر کوئی بھی جمہوری وزیراعظم بھلے اس میں بے شمار برائیاں ہوں ملک کے مفادات اور عوام کی امنگوں کے برعکس فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتا۔ یہ اس کی کمزور فیصلہ سازی نہیں بلکہ عوام اور زمین سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری ہے جب کہ مارشل لا لگانے والوں کو کبھی جواب دہی کرنا ہی نہیں پڑتی اس لئے ان کا ہر قدم درست تسلیم کر لیا جاتا ہے اور انصاف کے مراکز سے سند بھی مہیا کر دی جاتی ہے۔
ٹرمپ نے رقم کا حساب مانگا ہے تو لگے ہاتھوں پاکستان بھی اس سے اپنے وجود پر لگے زخموں کی تفصیل دریافت کرے۔ اس جنگ کے تناظر میں ہمیں کتنے فوجی، پولیس اور شہری کھونے پڑے، ہمارے اداروں پر حملوں نے ہمیں کس بے بسی اور لاچارگی سے دوچار کیا۔ ہمارے اسکول غیر محفوظ ہوئے۔ والدین کا چین چھنا اور بچوں کے ذہنوں میں ایسے خوف نے جنم لیا جسے کسی جواب سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ ہم، جو ایک جھنڈے تلے یہ ملک بنا کر چین سے زندگی بسر کر رہے تھے، کو ایسے نظریات میں تقسیم کر دیا گیا جو اس سے پہلے نہ ہمارے مزاج سے رغبت رکھتے تھے، نہ قدروں اور رسم و رواج سے اور نہ ہی ہماری ترجیحات اور روایات میں شامل تھے۔ بارود کے دھوئیں میں ہماری شناخت کا چہرہ کالا ہو گیا۔ دنیا نے بھی ہمیں برا خیال کر کے ہم سے منہ موڑ لیا۔ راستہ دینے والے اور استعمال ہونے والے نہ اپنی مٹی سے وفادار ہوتے ہیں، نہ قوم سے اور نہ مذہب سے تاہم بڑھ بڑھ کر بیان دینے والے فکری نااہل مشرف کو بلایا جائے کہ وہ آ کر رقم کا جواب دے۔ سپر پاور نے ہمیں استعمال کیا، ہم نے اس کے مفادات کے لئے اپنی نسلیں تباہ کر لیں مگر پھر بھی وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر سکے تو بدزبانی پر اتر آئے بلکہ ساس نندوں کی طرح طعنے دینے لگے۔ ویسے ٹرمپ کی سیاسی بصیرت سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ لوگ حتیٰ کہ امریکہ کے اپنے شہری بھی انہیں زیادہ سیریس نہیں لیتے اور امریکہ میں جس قدر بے چینی اور ناخوشی اس صدر کے انتخاب پر دیکھی گئی وہ اس سے قبل کبھی سامنے نہ آئی۔ اس لئے ٹرمپ کے بیان سے پاک امریکہ تعلقات میں رکاوٹ نہیں آنی چاہئے بلکہ مثبت حوالے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امریکہ کو بھی اب سوچنا چاہئے کہ دنیا کو دشمن بنانے کی بجائے دوست بنانے کی طرف سفر شروع کرے کیوں کہ توسیع پسندی کی اس جنگ نے پوری دنیا کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
بہرحال دو آمروں ضیاء الحق اور مشرف نے نہ صرف پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ دنیا میں ظلم کے بڑھاوے میں حصہ دار بنے اور ان کی وجہ سے ہماری بہادر فوج کا مورال متاثر ہوا، وہ سوالیہ نشان بنی، کرے مائی تے بھرے جائی (ماں کی غلطی بیٹی کو برداشت کرنی پڑتی ہے)۔ اسی طرح ان دوآمروں کی غلطیاں پورے ادارے کو جھیلنی پڑ رہی ہیں تاہم فوج آج اس جھنجھٹ سے نکلنے اور اپنے دائرہ اختیار کے مطابق کام کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے جو خوش آئند ہے۔ لیکن حکومت کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کب تک ایک آقا کے قدموں سے اٹھ کر دوسرے کی جھولی میں گرتی رہے گی۔ آزاد معاشی اور خارجہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مشرف کی عیش و عشرت کی زندگی سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سوچتے بھی نہ ہوں گے کہ
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں.

تازہ ترین