• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قراردیا جانا مبالغہ آرائی ہرگز نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں زراعت پر اتنی توجہ نہ دی گئی جس کی وہ حق دارتھی۔ چھوٹے کاشتکار جن کی زندگی کا دارومدار ہی ان کی فصل پر ہوتا ہے، اکثر شاکی رہتے ہیں کہ انہیں ان کی فصل کی صحیح قیمت وصول نہیں ہوتی۔ حکومت اگرچہ قیمت مقرر کرتی ہے لیکن کاشتکاروں کی طرف سے یہ شکایات عام ہیں کہ ان کو ان کی فصل کے سرکاری طور پر مقرر کردہ دام نہیں ملتے۔ اس وقت گنے کا سیزن ہے اور جنوبی پنجاب ہی نہیں دوسرے صوبوں کے کاشتکار بھی سراپا احتجاج ہیں۔ سندھ کی صورتحال تشویشناک ہے جہاں گنے کے کاشتکار مقررہ قیمت نہ ملنےپر قومی شاہراہ پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سندھ کی 34شوگرملیں بند ہیں ۔ ملز مالکان گنے کی فصل خریدنے سے انکاری ہیں اور اس ضمن میں وہ سب متحدہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لئے فصل نہیں اٹھا سکتے کہ ان کے گوداموں میں پچھلے سال سے بارہ لاکھ ٹن چینی پڑی ہوئی ہے اور وہ سندھ اور وفاقی حکومت کی طرف سے سبسڈی نہ ملنے پر چینی ایکسپورٹ بھی نہیں کرسکتے۔ سندھ حکومت کے مطابق وہ چینی ایکسپورٹ کرنے کے لئے 15روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی دے چکی ہے۔ وفاقی حکومت سبسڈی نہیں دے رہی۔ مذکورہ حالات کا جائزہ یہ حقائق سامنے لاتا ہے کہ ملز مالکان نہ صرف سبسڈی لے کر چینی ایکسپورٹ کرکے منافع کمانا چاہتے ہیں بلکہ کاشتکاروں سے ان کی فصل بھی مقررہ نرخ سے کم پر خرید کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ طرزعمل کاشتکاروں پر ظلم کے مترادف ہے کہ ان کی زندگی کا انحصار ہی ان کی فصل پر ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس معاملے کاجائزہ لیں اور معاملات کو حل کریں۔ غریب کسانوں سےکسی بھی قسم کی زیادتی نہیں ہونی چاہئے، انہیں پورا معاوضہ دلایا جائے۔ علاوہ ازیں اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر کوئی حل تلاش کاجائے تاکہ ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہو۔

تازہ ترین