• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری زندگی ایک ندی کی طرح بہتی رہتی ہے۔ البتہ موسموں کے اعتبار سے اس کی رفتار میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔ اس کے ہاں ایک تسلسل، ایک روانی اور ایک فطری بہاؤ ہے، چنانچہ ہم اسے ہفتوں، مہینوں اور عشروں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ آپ ماضی میں جو کچھ بو چکے ہیں، اس کی فصل آپ مستقبل میں کاٹیں گے۔ اسلامی تعلیمات میں ایک ایک لمحہ شمار ہوتا ہے کہ اس کا حساب یومِ آخرت کو دینا ہو گا۔ اس لیے ہر شب سونے سے پہلے اپنا احتساب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ آج کے دن کتنے حقوق العباد ادا کیے اور رَب عرش کریم کے حضور کس خضوع و خشوع سے پیش ہوئے۔ زندگی اگر اس انداز سے منظم کر لی جائے، تو منصوبہ بندی کے لیے مہینوں اور برسوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور اپنی ذمہ داریوں اور آرزوؤں کا ایک پروگرام ازخود ترتیب پاتا ہے جس پر عمل درآمد کا شعور پوری طرح بیدار اور ضوفشاں رہتا ہے۔ یہی شعور آپ کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے اور اس کے صحیح استعمال سے جو خوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس پر آپ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں اور خود احتسابی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر نیا روز ایک نئے سال کی حیثیت سے طلوع ہوتا ہے۔
دراصل ہمارا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جس میں کربلا کا دردناک واقعہ پیش آیا تھا، اس لیے ہم اس کے آغاز پر خوشیاں نہیں مناتے، جبکہ ہمارا پورا نظامِ زندگی شمسی نظام اوقات پر چل رہا ہے، کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک اسی نظام کے ساتھ وابستہ ہیں اور اُن کے نزدیک یکم جنوری سے نیا سال شروع ہوتا ہے۔ وہ اس کی آمد پر جشن برپا اور بڑے پیمانے پر آتش بازی کا اہتمام کرتے ہیں۔ سربراہانِ مملکت اور عظیم قائدین نئے سال پر پیغامات جاری کرتے ہیں جن میں نیک جذبات اور آئندہ کے عزائم کا اعلان ہوتا ہے، مگر اس بار امریکی صدر نے صبح کے چار بج کر بارہ منٹ پر جو پہلا ٹویٹ کیا، وہ پاکستان کے عوام پر برقِ تپاں بن کے گرا جس کے باعث ان کی خوشیاں کافور ہو گئیں۔ مسلمہ سفارتی آداب اور شائستگی کی تمام حدود پامال کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے گزشتہ پندرہ برسوں میں امریکہ سے 33ارب ڈالر وصول کیے اور اُن کے عوض جھوٹ اور فریب سے کام لیا اَور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔ اس ٹویٹ میں دھمکی دی گئی کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے فیصلہ کن اقدامات نہ کیے، تو اس کی امداد بند کر دی جائے گی اور دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے ضروری اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ بیان تھا جو اُن کے پہلے بیانات کا ایک تسلسل ہے اور بعض حلقوں میں اس سے گہری تشویش کی لہر بھی دوڑ گئی ہے، مگر ہمارے لیے کسی قدر اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ خود امریکہ کی دو تہائی آبادی اپنے صدر کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور بے وقت کی راگنیوں سے بیزار ہے۔
جنرل اسمبلی کے 128ارکان نے ان کا یہ اعلان مسترد کر دیا ہے کہ امریکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتا ہے اور وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلمان اور عیسائی یکجا ہو گئے ہیں اور پوری دنیا میں بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی پر ایک تحریک ِ مزاحمت منظم ہوتی جا رہی ہے۔ ریاست کی سطح پر پاکستان نے امریکی صدر کے بیان کا نہایت مدلل اور دوٹوک جواب دیا ہے۔ سویلین اور عسکری قیادتوں نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایک متوازن مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جو اس پختہ یقین کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اپنے وطن کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور 33ارب ڈالر کا حساب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان میں سے 14ارب ڈالر ان خدمات کے عوض ادا کیے گئے جو پاکستان مختلف صورتوں میں بجا لاتا رہا ہے اور باقی رقوم کا بڑا حصہ دہشت گردی کی قوت توڑنے کے لیے اسلحہ خریدنے پر صرف ہوا ہے۔ ایک دنیا اس امریکی حماقت پر خندہ زن ہے کہ اس نے افغانستان میں پندرہ برسوں کے دوران 900ارب ڈالر خرچ کیے جبکہ وہ طالبان کو شکست دینے میں بری طرح ناکام رہا اور آزاد ذرائع کے مطابق افغانستان کے پچاس فی صد حصے پر اُن کی عمل داری قائم ہے۔ اس ناکامی کا سارا ملبہ امریکہ پاکستان پر ڈالنا اور اسے دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اس ضمن میں یہ امر بھی باعث ِ اطمینان ہے کہ امریکی صدر کے ٹویٹ کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں نے یکساں موقف اختیار کیا ہے اور سول اور عسکری قیادت بھی ایک صفحے پر دکھائی دیتی ہے، حالانکہ دوسرے ملکی معاملات میں ان کا طرزِعمل قدرے مختلف اور تشویش انگیز ہے۔ بعض سیاسی قائدین ہوسِ اقتدار میں کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں اور وہ موجودہ حکومت کو گرانے میں اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے قوی امکانات دیکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی میعاد پوری کر سکے نہ سینیٹ کے انتخابات منعقد ہو سکیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں اور سیاسی استحکام کا بہت بڑا تقاضا ہے کہ وقت پر انتخابات ہوں اور دوسری بار پُرامن طریقے سے انتقالِ اقتدار عمل میں آئے۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہو گی، کیونکہ سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان اس کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے۔ غالباً جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف سے خطے کی سلامتی کے متعلق ایک وسیع عالمی تناظر میں اس پہلو پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہو گی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب سے واپسی پر میڈیا کے سامنے جو اپنا بیان پڑھ کر سنایا، اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو اپنا مثبت کردار اَدا کرنا چاہئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ہماری عزتِ نفس کا اسی وقت احترام کرے گا جب ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے اور اپنے گھر کو درست رکھیں گے۔
میرے خیال میں اس نئے سال کے آغاز میں پوری قوم کو عہد کرنا چاہئے کہ وہ شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے گی۔ اس عظیم الشان نصب العین کے لیے میڈیا کو اہم کردار اَدا کرنا ہو گا۔ حضرت اقبالؔ کے اس شعر میں ہمیں ایک حیات آفریں پیغام کا آہنگ ملتا ہے ؎
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں تسبیح روز و شب کا شمار کرتا رہا دانہ دانہ.

تازہ ترین