• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال کے ساتھ ہی نئی اصطلاحات جو 70سال پرانی ہیں۔ ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو‘‘ کی مانند، تمام سیاست دانوں، دانشوروں، وکیلوں اور ادیبوں کی زبان پر ہیں۔ فقرہ یہ ہے کہ ’’ہمیں قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے۔‘‘ چلو اچھا ہوا، زبانی کلامی صحیح، کہنا شروع تو کیا ہے وہ بھی سامنے آتی رجعت پسندوں کی ٹرین کو دیکھ کر کہ نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے۔ مگر پورے سال ہم نہیں سمجھے۔ پہلے ہم طالبان سے گفت و شنید کرنے کو تیار ہوئے، جب انہوں نے ہمارے ہی گھروں، درگاہوں، مسجدوں، عبادت گاہوں کو تباہ کرنا اور معصوم لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا تو ہم نے ان سے آنکھیں پھیرنے اور دشمن سمجھنے کا ایک دفعہ اور ارادہ کیا کہ ایک زمانے میں تو ہم ان کی حکومت کو بھی تسلیم کرچکے تھے۔
یہ سارے خدشات اور قائداعظم کی روح سے وعدے مجھے سال کے شروع میں کیوں یاد آرہے ہیں۔ کراچی میں دسویں عالمی اردو کانفرنس میں شمولیت کے بعد یہ خیالات پانچ دن پر محیط گفتگو کی روح کو سمیٹتے ہوئے یاد آئے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں وعدے و عید کی بہت کانفرنسوں میں شمولیت کی، لب لباب کچھ نہ دیکھا۔ یہ کانفرنس جو محمد احمد شاہ نے منعقد کی، اس میں پاکستان کے ستر سال کا درد محسوس کرتے ہوئے، علوم و فنون سے لیکر ادب اور عام آدمی کی زندگی کا جیسے تجزیہ ہوا۔ زہرہ نگاہ سے رضا ربانی تک نے یہاںاسکی چبھن محسوس کی۔ احمد شاہ کیساتھ ڈاکٹر جعفر نے جب قائد اعظم کے پاکستان کے اغوا کی ایف آئی آر پڑھی تو نوجوانوں سے بھرے اس ہال میں، حارث خلیق سے لیکر انور مقصود نے بھی فکری رجعت پسندی کو حاوی آتے دیکھ کر، قوم اور خاص کر ادیبوں کو وارننگ دی کہ اس سے پہلے پھر کوئی نیا فیض آباد دھرنا ہوجائے، اس سے پہلے ہم بہت عرصے تک داعش کی موجودگی سے انکار کرتے رہے، مجرموں کو شہید سمجھنے والوں کو تنبیہ تک نہ کی۔ تمام اخباروں اور چینلوں کو آزادی دی کہ جو چاہے کہیں، اور عدالتوں کو حق دیا کہ دیت کے نام پر قاتلوں کو خون بہا کے عوض رہا کرتے رہیں۔ کرپشن کے لفظ صرف لفظ رہنے دیں البتہ جگہ جگہ بورڈ لگا دیں۔’’کرپشن کو ،ختم کرو‘‘ جیسے ڈینگی مچھروں کو ختم کرو کہا جاتا ہے۔
ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث کو چھوڑ کر یہ جس طرح افسانہ ناول اور شاعری میں بیان کیلئے استعاروں نے جگہ بنائی۔ پھر اندھیرے میں راستہ ڈھونڈتے ہوئے، ہم پہلے قرارداد مقاصد کی آگہی سے ٹکرائے۔ پھر بے سوچے سمجھے، پاکستان کو دو صوبوں میں مختصر کرکے، بڑی چالاکی فرمائی۔ پارلیمانی نظام کو بند کرکے، ایوب خاں سے لے کر مشرف تک، کل طاقت بن کر حکومت کرتے اور اپنے اپنے خزانے بھرتے رہے۔ آنکھ کھلی تو باہر جانے کا راستہ بھی نہ تھا، اگر تھا کچھ تو وہ دھمکیاں تھیں جو بڑی طاقت ’’ورنہ‘‘ کہہ کر ہمیں ڈرا رہی تھی۔ ہم بار بار گڑگڑا کر کہتے۔ ’’اب نہیں، اب کے نہیں، بالکل نہیں کریں گے‘‘۔
فنون لطیفہ کے سیشن میں یاد کرایا کہ ضیا الحق کے دور میں کس طرح علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ میں تصویر کو شیروانی پہنانے کی کوشش کی گئی۔ کس طرح سعید اختر پہ یہ پریشر ڈالا گیا کہ پارلیمنٹ میں لگے قائد اعظم کے پورٹریٹ کو شیروانی پہنائی جائے۔ کیسے رسالپور میں لگی تصویر جس میں ٹیپو سلطان کے اوپر تین گورے سپاہ حملہ آور ہیں۔ کہا گیا ’’یہ لو یہ تصویر، اس میں سلطان ٹیپو کو اوپر اور ان گوروں کو ان کے نیچے دکھائو۔ کرنے والوں نے یہ کمال بھی دکھا دیا۔ ایسے کمالات بھی دکھائے گئے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پہ نہ نصاب میں، نہ اخبار میں، کوئی یہ کہہ سکا کہ ہتھیار ، جنرل نیازی نے انڈیا کے سپہ سالار کے سامنے کیوں ڈالے۔ بنگالی فوجیوں کے سامنے ڈالتے تو اور بات ہوتی۔
کچھ ادیب، حسن عسکری کے زمانے میں زندہ ہیں۔ انہوں نے ادب کی موت کا اعلان کیا تھا۔ ساٹھ برس بعد بھی، لوگ سوٹ پہن کر اس اعلان کو دہرا رہے تھے۔ شکر ہے کسی نے یہ نہیں کہا کہ نسیم حجازی کے ناول کو اس کا حصہ بنایا جائے۔
شاعری، رقص اور قوالی کے سیشن میں جب میں نے امیر خسرو کی شاعری پہ نوجوانوں کو جھومتے، صحافت اور میڈیا پہ تبصروں میں لایعنیت کے فروغ پہ ماتم کرتے دیکھا تو نئی نسل کے لڑکے اور لڑکیوں سے امیدیں وابستہ کرنے کے علاوہ، انکو بے شمار سیلفیاں اتارتے ہوئے دیکھ کر، میں تو کیا، کوئی ادیب بھی بدمزہ نہیں ہوا۔ ہم سب کے دلوں سے دعائیں نکل رہی تھیں ان بچوں کو دیکھ کر جن کو ملیر، اورنگی اور کچی آبادیوں سے اٹھا کر، احمد شاہ نے بڑوں کا ادب کرنا، میزبانی کے آداب سکھائے، پانچ دن کی صبح سے رات تک کی مصروفیت، ان نوجوان لڑکے، لڑکیوں کوا سٹیج سجانے، کھانا کھلاتے ہوئے، ہم جیسے بزرگوں سے ادب کیساتھ پیش آنے کے کمالات سکھائے۔ یہ میرے مستقبل کی قوت ثابت ہونگے۔ شاباش کراچی آرٹس کونسل۔
کچھ اور باتیں، جو اس کانفرنس میں چپک کر رہ گئیں۔ بھلا میڈیا سے گائیکی میں غزل اور کلاسیکل کیوں غائب کیا گیا۔ ہمارے مقالہ نگار، آخر دس منٹ میں اپنی بات مکمل کیوں نہیں کرتے۔ یہ سارے محقق یہ کیوں کہتے ہیں کہ 24صفحات کے مضمون کو میں مختصر نہیں کرونگی یا کرونگا۔ کیوں ہر مضمون نگار ماضی کی سمت زیادہ اور آنے والے زمانوں کے معاشرے کو نہیں دیکھتا ہے۔ ویسے بھی ایک طویل مضمون اور اس پر چار دقیع نظر رکھنے والے دانشور بولیں تو ہر ایک کو دس منٹ دئیے جانے کا گلہ بھی نہ ہو۔
ایک بات جو میںنے دلی غالب انسٹیٹیوٹ اور کراچی آرٹس کونسل میں یکساں پائی کہ کانفرنس کے دوران، ایک ہزار لوگوں کے کھانے کا دونوں وقت اہتمام ہوتا ہے۔ ساڑھے بارہ بجے چاہے کراچی ہو کہ دلی ہال بھرا ہوتا ہے۔ اس کانفرنس میں تو یہ بھی غلط ثابت ہوا کہ صبح گیارہ بجے نوجوان لڑکے، لڑکیاں کاپیاں لئےنوٹس بناتے رہے۔ فہمیدہ ریاض کی غیر موجودگی کو سب نے محسوس کیا۔ خدا، اس کو جلد صحت یاب کرے۔

تازہ ترین