چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک کیس کی سماعت کے دوران رولنگ دی تھی کہ 2018میں سپریم کورٹ کی توجہ کا مرکز صحت اور تعلیم ہوں گے۔ اگلے ہی دن فاضل چیف جسٹس نے لاہور کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار پر موصول ہونے والی شکایات پراز خود نوٹس لیتے ہوئے شہر کے 19اسپتالوں کے ایم ایس صاحبان کونوٹس جاری کئے ہیں اور انہیں 6جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ذاتی طورپر پیش ہو کر اپنے اپنے اسپتالوں میں موجود ایمرجنسی مشینری، آلات، وینٹی لیٹرز، آکسیجن انکیوبیٹرز، آپریشن تھیٹر کی سہولیات، انجیو گرافی مشینوں، سی ٹی سکین، ایم آر آئی، ایمبولینسز، جان بچانے والی ادویات کی دستیابی، مریضوں کو مفت فراہم کی جانے والی میڈیسن اور ایسی ادویات جو اسپتال کے باہر سے خریدنی پڑتی ہیں سے متعلق تفصیلی رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ وہ سامان ہے جس میں سے کسی ایک کے بغیر بھی علاج معالجے پر اثر پڑ سکتا ہے اور اس کی غریب و نادار مریضوں کیلئے دستیابی یقینی بنانے کیلئے چیف جسٹس کا یہ اقدام لائق صد تحسین ہے۔ علاج معالجے کیلئے لاہور نہ صرف پورے پنجاب کا مرکز ہے بلکہ پاکستان بھر میں کلیدی حیثیت کا حامل ہونے کے باعث ملک کے ہرحصے سے امیر و غریب لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ صاحبان حیثیت کے پاس تمام وسائل ہوتے ہیں لیکن غریب و نادار ٹھوکریں کھا کر علاج کے بغیر واپس چلے جانے پر مجبور ہوتےہیں۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ملک کے بہت سے ضلعی اورتحصیل اسپتالوں میں بیشتر مشینیں اکثر ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکس میں استعمال ہوتی ہیں اور حکام کے دوروں کے موقع پر انہیں واپس اسپتال پہنچا کر مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کا تاثر دیا جاتا ہے محکمہ صحت کے حکام کو بھی اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں میں چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام قائم کرنا چاہئے۔