• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تنہا سفر سے اکثر گریز کرتا ہوں....حالانکہ روزمرہ کے تھکا دینے والے معمولات سے ذرا ہٹ کر یکسانیت ٹوٹتی ہے۔ آنکھیں نئے منظروں کی شناسائی سے روشن اور فراخ ہوتی ہیں اور کان بار بار کے سنے ہوئے قصے کہانیوں کی آشنا آوازوں کے چنگل سے عارضی طور پر سہی آزاد ہو جاتے ہیں۔ دل کی مانوس بے ترتیبی کے ساتھ گھٹتی بڑھتی دھڑکنوں میں جیسے نامانوس آسودگی قطرہ قطرہ گھلنے لگتی ہے۔ میری پلکیں ہولے ہولے ایک دوسرے پر جھک جاتی ہیں۔ میں نیم غنودگی کے عالم میں نشست پر نیم دراز ہونے کی کوشش کرتا ہوں لیکن سکون کے ایسے لمحوں کا دورانیہ تنہا مسافر کے لیے بہت مختصر ہوتا ہے۔ جب بدن نیند کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہو تو ذہن جانے کیوں مقابلے پر اُتر آتا ہے۔ شاید سفر میں الرٹ رکھنے کے لیے۔ یوں مُندی ہوئی آنکھوں میں گزرے ہوئے اور آنے والے دونوں کل آپس میں گڈمڈ ہونے لگتے ہیں اور نہ چاہنے کے باوجود میری آنکھیں آپ ہی آپ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اس دُھندلاہٹ میں جون ایلیا کی شاعری پر میرا یقین ایک بار پھر محکم ہو جاتا ہے جب اس کی یہ دو لائنیں مجھے یاد آتی ہیں۔
رات سونے کے لیے دن کام کرنے کے لیے
وقت ملتا ہے ہی نہیں آرام کرنے کے لیے
تنہا سفر سے گریز کرنے کے پیچھے بس یہی کہانی ہے خود کلامی کی۔ اس کے بعد مجال ہے جو ایک منٹ کو سکون آئے۔ ذہن جاگتا رہتا ہے اور باہر کے سارے منظر دھندلائے ہوئے گزرتے جاتے ہیں اور اندر ذہن میں بھولی بسری کہانیاں آس اور یاس میں لپٹی ہوئی منظر اچھے برے ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے سوال جو پوچھے نہ جا سکے لفظ جو ادا نہ ہوسکے خواہشیں جو پوری نہ ہوئیں منصوبے جو ادھورے رہ گئے۔ ایک سے دوسری بات بس نکلی چلی جاتی ہے۔ پچھلی برسات میں جیسے ساری بارش گلی کی نالی میں گر کر ویران ہوئی۔ کوئی اسے روک کر گلی کی نکڑ یا اس کے آگے پیچھے گڑھے میں دبا لیتا تو اگلے سوکھے میں چار چھ گھروں کا سارا میل آسانی سے دھل جاتا۔ لیکن وہ جو عیسائی گلی میں بم پھٹا تھا اس میں خون پانی کی طرح بہا تھا اس کا میل تو کیچڑ بن گیا تھا اور ابھی تک اس کیچڑ کے بلبلے آبلوں کی طرح پھٹتے ہیں۔
قائداعظم ہمیں پاکستان دینے کے بعد صرف 13 مہینے جئے اور اس مختصر وقت میں انہوں نے بلامبالغہ سینکڑوں بار ہمارے ہم وطن غیر مسلم پاکستانیوں کی حفاظت اور معاشرے میں ان کے لئے مساوی مواقع کا عہد دہرایا۔ ہم ان کی حفاظت تو کیا کرتے خود اپنوں کا خون پانی کی طرح بہارہے ہیں۔ اب ہمارا اپنا یہاں باقی رہا کون ہے؟ کیا ہمیں اپنی مسجدوں اپنی امام بارگاہوں اپنے صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے مزاروں سے اٹھنے والے آگ کے شعلوں اور دھویں کے بادلوں سے اپنوں کے جلتے ہوئے خون کی بو نہیں آتی۔ وہ ہمیں کافر قرار دیتے رہے اور ہماری عبادت گاہوں کو زمین بوس کرتے رہے اور ہم ان کی پہچان سے انکار کرتے رہے۔ پھر وہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں پر حملہ آور ہوئے لیکن وہ تو ابھی کافر اور مرتد کہلانے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔ مگر ہم نے قاتلوں کی پہچان میں بہت دیر کر دی تھی۔ ہاں اب اپنوں کا خون بہنے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ ہاں شعیب بن عزیز۔
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
تنہا مسافر کا سفر ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ میں بے دھیانی سے ادھ کھلی آنکھوں سے گھڑی کے ڈائل پر نظر ڈالتا ہوں۔ صرف 70 منٹ گزرے ہیں سفر اختیار کئے اور لگتا ہے 70برس بیت گئے۔ خیالات کے غیر مرئی پردے پر واقعات برق رفتاری سے گزرتے جاتے ہیں۔ بے ہنگم اور بے ترتیب۔ خود کلامی نے آوارہ خیالی کا روپ دھار لیا ہے۔ بھدے رنگ کی پگڈنڈی پر گرانڈیل اڑیل بھینسے ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسائے لہولہان جسموں کے ساتھ بے سمت بھاگتے جاتے ہیں۔ آگے پیچھے دائیں بائیں وہ دوڑتے ہوئے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن فاصلہ طے نہیں کرتے، وہ مسلسل وہیں موجود ہیں جہاں وہ تھے۔ ان کے چاروں طرف اور اوپر دور تک اڑتی ہوئی دھول کا رنگ خاکستری نہیں، گہرا کاسنی ہے جیسے اس دھول میں زبان، عقیدے اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کے خون کی سرخی بھی شامل ہو اور پھر گہرا اندھیرا۔ خوف میری نیم وا آنکھیں پوری کھول دیتا ہے۔
کھڑکی کے باہر تیز روشن سورج، مجھے اپنے بدن میں زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ میں کھنچتی ہوئی کمان کی طرح انگڑائی لے کر اپنے ہمسفروں پر انتہائی دائیں سے بائیں طرف کے آخری کونے تک اچٹتی نظر ڈالتا ہوں اور پھر سب اونگھتے دکھائی دیتے ہیں۔ سہمے ہوئے اور ناتواں، اپنے مستقبل سے ہراساں۔ خوف کی ہلکی سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں اوپر سے نیچے تک پہنچتی ہے۔ میرا جی اچانک چاہتا ہے میں خود اپنے آپ سے اور ان سب سے جو میرے ساتھ یہاں موجود ہیں اونچی اور پختہ آواز میں امیدافزا اور بے شمار باتیں کروں۔ خوشحالی اور سہانے مستقبل کی باتیں راحت اور سکون امن اور سلامتی روشنی اور خوشبو کی باتیں۔ لیکن کیا کروں کوشش کے باوجود میرے لفظ آواز نہیں بنتے شاید ایسے کسی مشکل لمحے میں فیض نے کہا تھا۔ لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے؟ شہروں میں بکھری ہوئی اور دیہات میں دور سے نمایاں غربت دائیں بائیں نظر آتی ہے تو امید افزا لفظ زبان سے ادا نہیں ہوتے لیکن میں ان کے سامنے بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کی کمیابی، جہالت اور بے روزگاری کا ذکر بھی نہیں کرتا۔ یہی زندگی تو جی رہے ہیں۔ غذا اور دوائوں میں ملاوٹ، ٹریفک حادثوں کے نام پر بے حس خونریزی یا پھر صاف پانی، دو وقت کی روٹی، تعلیم اور طبی سہولتیں، سر پہ چھت اور انصاف کا حصول۔ یہ سب کیسے اور کب ممکن ہوگا۔ 70برس تو گزر چکے ہیں۔ میں انہیں نئی تاریخ کیا دوں؟
ابھی نئے سال کا آغاز ہوا ہے۔ ٹی وی پر دیکھ کر یا دوسروں سے سن کر، انہیں معلوم ہے کہ دنیا بھر میں نئے سال کا جشن کیسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ نئے سال کی رات اور اس سے اگلے روز تک، ہمارے نوجوان بھی اس عارضی احساس بشاشت سے سرشار تھے۔ مگر جب امید کے رنگ اور خوشبو ہمارے شہروں اور ہمارے دیہات سے روٹھ جاتے ہیں تو اپنوں سے آشنائی، دلوں سے رغبت اور حکمران اشرافیہ پر سے اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے۔ بے حسی لوگوں کو حصار میں لے کر ناکارہ بنا دیتی ہے۔ خوف، محبت، خواہش اور نفرت، غم اور خوشی کے سارے بنیادی جذبے سرد پڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں جنگ اور امن، امید اور مستقبل بے معنی لفظ ہو جاتے ہیں۔
بے حسی اور لاتعلقی کی اس گہری تاریکی سے بہت پرے، کہیں روشنی کی ایک باریک کرن ہمیشہ روشن رہتی ہے جو امید کے مردہ جسم میں نئی زندگی کی ضامن بنتی ہے۔ یہ بے غرض لوگوں کے مختصر گروہ کی دائم روشنی ہے۔ جب تک یہ روشنی باقی ہے امید کا چراغ بھی روشن رہے گا۔

تازہ ترین