• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم تر روایات کی حامل اور 65کی جنگ میں اپنی شجاعت کا لوہا منوانے والی پاکستان ایئرفورس کی آبیاری سے لیکر بے داغ قومی سیاست کے افق پر چمکنے والے ستارے ایئرمارشل (ر) اصغر خان، جو97برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے راولپنڈی میں انتقال کر گئے، کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد رکھا جائے گا۔ ان کی رحلت کے ساتھ ہی سیاست کا ایک باب بند ہوگیا۔ ان کی وفات پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف نے دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ملک و قوم کے لئے ان کی خدمات کوسراہا اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی ہے۔ اصغر خان17جنوری 1921کو جموں کشمیر کے ایک درخشاں فوجی روایات کے حامل خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1936 میں رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں تعلیم حاصل کی۔ 1940میں رائل انڈین ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی ۔ 1945میں سکواڈرن لیڈر بنائے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد جب قائد اعظم پاک فضائیہ کالج رسالپور تشریف لائے تو اصغر خان نے کالج کے پہلے کمانڈنٹ کی حیثیت سے ان کا خیر مقدم کیا ۔ انہوں نے آزادی کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے محاذ پر چھڑنے والی جنگ میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ 1957میں 36سال کی عمر میں ایئروائس مارشل اور اگلے ہی سال ایئر مارشل بنا دیئے گئے۔ انہیں ہلال قائد اعظم اور ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا ۔ 1965کی پاک بھارت جنگ جیتنے والے قومی ہیروز کا ذکر بھی اصغر خان اور نور خان سے شروع ہوتا ہے جنہوں نے بحیثیت ایئرمارشل پاکستان ایئرفورس کی اس طرح آبیاری کی کہ آج اسے دنیا کی صف اول کی فورسز میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ عسکری، سیاسی اور دیگر موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اصغر خان قومی سیاست میں آگئے۔ ایوب خان کے دور میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت جسٹس پارٹی کے نام سے قائم کی جسے 1970 میں تحریک استقلال کا نام دے دیا گیا ۔ جس نے1970کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا اور وہ بھٹو کے ایک اہم سیاسی حریف ثابت ہوئے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ بھٹو حکومت کے خلاف بننے والے پی این اے کا حصہ بنے، دراصل اس کے پیچھے ان کی جمہوری اور اصولوں پر مبنی سوچ تھی اور یہ سوچ ان کی زندگی کے آخری دن تک ان کے ساتھ رہی۔ اس دوران ضیا الحق کے دور میں جب انہیں اقتدار میں شرکت کی دعوت دی جا رہی تھی تو بھی انہوں نے جمہوریت کا ساتھ نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ اپنے صاحبزادے عمر اصغر خان پربھی اپنی سیاست کا لیبل نہیں لگنے دیا اور انہیں درس و تدریس کی پیشہ ورانہ زندگی سے وابستہ رہنے کی مکمل آزادی دی۔ اصغر خان کوزندگی میں جوان بیٹے عمر اصغر کی پراسرار موت، دو بھائیوں پائلٹ آفیسر آصف خان اور سکواڈرن لیڈر خالد خان کی پاکستان کےلئے دی گئی جانوں کی قربانیوں جیسے دھچکے اور صدمات بھی برداشت کرنا پڑے۔ اصغر خان کو اپنی سیاسی زندگی میں اتار چڑھائو کا جو سامنا کرنا پڑا ان کے پیچھے ان کے جمہوری مزاج کا عمل دخل تھا۔ وہ ہر حال میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ کبھی انہوں نے ضیاالحق کی جانب سے انتخابات کے التوا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور کبھی ضیاالحق ہی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی۔ وہ صاف ستھری اور کرپشن سے پاک سیاست کے اس قدر خواہاں تھے کہ ملکی سیاسی حالات سے مایوس ہو کر سیاست ہی چھوڑ دینے کو ترجیح دی۔ زندہ قوموں کیلئے ایسے بے داغ، بے لوث، اصولوں، دیانت، شرافت اور شائستہ سیاست کے حامل رہنما اور سپاہی سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائےاور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین.

تازہ ترین