• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کا جلا کٹا ٹوئٹ کیا آنا تھا کہ راج سنگھاسن پہ بیٹھے جغادریوں میں کیا کھلبلی تھی کہ نہ مچ گئی۔ اور میرے پرانے دوست خواجہ آصف کی رگِ ظرافت کہیے یا بھانڈپن، ٹرمپ کو اُنہوں نے وہ وہ سنائی ہیں کہ شاید اُس پر چھپنے والی آگ اور بگولہ نامی کتاب کا مصنف بھی مات ہو جائے۔ ارے بھئی ٹرمپ کے ٹویٹس تو ایسے غضبناک ہیں کہ اتحادی کیا، دشمن کیا، خود اُن کی انتظامیہ کے ہاتھوں کے طوطے صبح شام اُڑتے ہیں۔ امریکہ پہ یار ماری کا الزام تو بہت پُرانا ہے اور ریاستی تعلقات میں ذاتی یاری دوستیوں کی وقعت کم ہی ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے وہی کہا ہے جو اُس نے گزشتہ برس اگست میں کہا تھا، یا پھر اُس کا نائب صدر پینس، سیکرٹری خارجہ ٹلرسن، قومی سلامتی کا مشیر میک ماسٹر، سیکرٹری دفاع میٹس اور امریکی کمانڈر گزشتہ چار ماہ میں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کے روبرو مسلسل دہراتے رہے ہیں۔ اور ہم اپنی خودکلامی کی خودفریبی میں ایسے مگن رہے کہ معاملہ ہاتھ سے نکلا دکھائی پڑتا ہے۔ امریکی یک زبان کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کرتے رہے ہیں، دھوکا دیتے رہے ہیں اور جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ دغابازی، غنڈہ گردی اور بدمعاشی میں واحد سُپرپاور کا کوئی ثانی نہیں۔ جنوبی ویت نام اور افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد کس طرح امریکہ اپنے حواریوں اور اتحادیوں کو چھوڑ بھاگا تھا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ پھر ہمارے لیے تو بھارت کا ہَوا اتنا بڑا ہے یا پھر اتنا کھڑا کیا گیا ہے کہ ہم شروع ہی سے امریکہ کی فوجی گود میں جا بیٹھے کہ فوجی آمروں کے لیے اس جواز پر اپنی نوکری اور حکمرانی بچائے رکھنے کا یہ بڑا ہی منفعت بخش راستہ تھا، بھلے ملک امریکہ کا دست نگر بن کے کیسے ہی ایک دائمی بھکاری بن کے رہ جائے۔ یہ سلسلہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے شروع ہو کر جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف تک پھیلا ہوا ہے جو پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ہر بار استعمال کیے جانے کے باوجود ہم ٹشو پیپر بننے کو ہی اپنی تذویراتی (Strategic) معراج سمجھتے رہے اور بعد میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکی یلغار کا سہرا بھی جنرل ضیاء الحق کے سر پر سجا اور ہم نے مادرِ وطن اور خطے میں امریکہ کے ایما پر دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے ایسے بیج بوئے کہ یہ فصل ختم ہونے کو نہیں اور ہمارے لیے ایک مستقل سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ پھر میدان میں اُترے ہمارے فاتح کارگل جن سے صدر کلنٹن ہاتھ ملانے کے روادار نہ تھے۔ 9/11 کیا ہوا کہ جنرل مشرف کے مقدر کھل گئے۔ اُنھوں نے انگریزی محاورے کے مصداق ہرنوں (اچھے طالبان) کے ساتھ کلانچیاں بھرنے اور خونخوار کتوں (بش انتظامیہ) کے ساتھ مل کر (برے طالبان) کا شکار کھیلنے کا ڈھونگ رچایا۔ اور اس تازیانے کے ساتھ کہ پاکستانی طالبان سوات سے لے کر تمام قبائلی علاقوں پہ اپنی امارات قائم کر کے بیٹھ گئے۔ اور افغان طالبان کو بے شمار پناہ گاہیں میسر آ گئیں۔ دوسری طرف سالانہ 35 ارب ڈالرز اور 100 ارب ڈالرز ریاستی تعمیر پر خرچ کر کے اور ایک لاکھ سے زیادہ فوج اور اتنے ہی پرائیویٹ فوجی ٹھیکیدار جھونک کر بھی امریکہ بمشکل کابل انتظامیہ کو بچا پا رہا ہے۔ اور ہم 16 برس سے 70 ہزار اپنے ہی شہری اور سات ہزار سے زیادہ جیالے فوجی گنوا کر اور 125 ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان اُٹھا کر بھی نہ صرف امریکہ کی نظر میں راندئہ درگاہ ہیں بلکہ دہشت گردی کے عفریت سے بھی جان نہیں چھڑا پا رہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی یہ خوفناک ہنڈیا تو بیچ چوراہے پھوٹنی ہی تھی۔ یہ پہلے بھی کئی بار پھوٹی، لیکن اب کی بار سُپرپاور زیادہ ہی بھنائی ہوئی لگتی ہے اور وہ بھی استعمار کے گناہوں کی سزا خوفناک مسخرے ٹرمپ کی صورت میں۔ لیکن یہ سوچنے کا وقت ہے اور تحمل و بُردباری سے حقیقت پسندانہ جائزے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی شرانگیز اشتعال پھیلانے والی کوئی ایسی خوفناک خونریزی کر گزرے جو امریکیوں کو مشتعل کر دے یا پھر امریکہ کوئی حد سے گزری ہوئی جارحانہ کارروائی کر گزرے اور جذبات اُمڈ کر سڑکوں پہ آ جائیں، جوابی مذمتی بیانات اور صفائیوں سے ہٹ کر پاک امریکہ تعلقات کو مزید بگاڑ سے بچانے کی تدابیر کرنی چاہیے۔ اب تک تو امریکہ نے فقط پچیس کروڑ پچاس لاکھ اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی آدھی رقم پینتیس کروڑ پچاس لاکھ اس شرط پر روکی ہے کہ پہلے حقانی نیٹ ورک اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے خلاف پاکستان بارآور کارروائی کرے۔ مزید تادیبی کارروائیوں کا سلسلہ ابھی روک کر رکھا ہوا ہے، جس میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں، عالمی مالیاتی اداروں کا بائیکاٹ، دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک، ڈرون کی یلغار اور وہ سب کچھ جو امریکہ کے لیے بعید نہیں جس کا مظاہرہ وہ لیبیا کو توڑ کر اور شام و عراق کو برباد کر کے کر چکا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کیا ہوا ہے: سو پیاز اور سو جُوتے!!
کیا تو ہم چلے تھے افغانستان کو اپنی تذویراتی گہرائی کا صوبہ بنانے اور کیا آج وہاں امریکہ کے ساتھ ہمارے سینے پہ مونگ دلنے کو بھارت بیٹھا ہے۔ اس عظیم تذویراتی سوچ پر کوئی ہے سلامتی کا ماہر جو کچھ تو پشیمانی کا اظہار کرے۔ اب ہم ایک اور سرد جنگ کی اُمید میں آس لگائے بیٹھے ہیں جو ہونے نہیں جا رہی۔ چین 2049ء تک کسی بڑے عالمی فوجی تنازع میں پڑنے کو نہیں، نہ ہی 2035ء تک اپنی اقتصادی راہ سے ہٹنے والا ہے۔ روس کے صدر پیوٹن بھی افغانستان میں امریکی فوجوں کو استحکام کے لیے ضروری قرار دے چکے ہیں۔ نئی صف بندیوں میں کوئی حرج نہیں، آخر امریکہ اور بھارت نے بحرِہند اور بحرالکاہل کے خطے میں چین کے خلاف صف بندی کر لی ہے۔ یقیناََ افغانستان میں استحکام افغانوں میں مصالحت اور امریکی فوج کے انخلا کے لیے امریکہ کو پاکستان اور پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ اور افغانستان میں امن و استحکام ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے بہت سے مشترک اہداف ہیں اور تذویراتی اعتبار سے اختلافات بھی۔ لیکن ہم نہ امریکہ کو للکار سکتے ہیں کہ آ بیل مجھے مار، کہ اس سے زیادہ بھارت کے لیے اور کونسی بڑی خوشخبری ہو سکتی ہے۔ اور نہ امریکہ کے بغیر افغان جنگ ختم ہو سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ سے ہمارا تعلق کیا ہے اور وہ ہم سے اس وقت چاہتا کیا ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ کے بقول یہ فقط شرائط پر مبنی (Conditions-based) تعلق ہے۔ اس کی بڑی واضح تشریح امریکی سلامتی کونسل کی اعلیٰ افسر مس ایلس ویلز نے یوں کی ہے: ’’گزشتہ چار برس سے پاکستانی حکام اور افغان طالبان، افغانستان سے افراتفری میں امریکی فوجوں کے انخلا کے منتظر تھے۔ لیکن ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی حکمتِ عملی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ امریکہ وہاں رہے گا اور طالبان کو جیتنے نہیں دے گا۔ ہم وہاں وہ تمام ذرائع جھونک دیں گے جو کم از کم وہاں حالات کو کابل کی حکومت کے حق میں جوں کا توں (Stalemate) برقرار رکھیں۔‘‘ امریکہ کا تقاضا ہے کہ: ’’پاکستان جس تزویراتی سنجیدگی کے ساتھ دوسرے دہشت گردوں (بُرے طالبان) کے ساتھ نبرد آزما ہوا ہے۔ وہ اسی شدت سے اُن دہشت گرد گروپوں جو بھارت یا افغانستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں، کے خلاف کارروائی کرے۔‘‘ اب ہمارے سامنے جو سوالات ہیں وہ یہ ہیں: کیا ہم امریکہ کا افغانستان سے جلد انخلا چاہتے ہیں کہ افغان طالبان کابل پہ قابض ہو جائیں؟
یا پھر یہ کہ ہم افغان طالبان یا کسی اور گروپ کو کسی طور اپنی سرزمین یا سہولت استعمال نہ کرنے دیں اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایسی مؤثر حکمتِ عملی اپنائیں کہ کسی قابلِ عمل افغان امن سمجھوتے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ یا پھر ہم چین پاکستان راہداری (CPEC) کو تمام خطے کے لیے معاشی شاہراہ بناتے ہوئے پاکستان کو جنوبی اور وسطی ایشیا کا مرکزی معاشی دوراہا بنانے کے لیے، تمام ہمسایوں سے اپنے تعلقات سدھاریں اور بات چیت سے اپنے مقدمات کا حل تلاش کریں۔ یا پھر شمالی کوریا کی طرح ایک روگ ریاست بننے کی خودکش راہ لیں۔بہتر یہی ہے کہ ہم امریکی افغان افواج پر حملہ آور اور بھارت کے ساتھ انگشت انگیزی کرنے والے عناصر کو پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بننے سے روکیں۔ اگر ہم ایسا پوری دلجمعی سے کریں تو ہم افغانستان سے بھارت کی ریشہ دوانیوں کا سدِباب کر سکتے ہیں اور دو طرفہ جاری پراکسی جنگوں کے خاتمے کے دو طرفہ اتفاق کی بنیاد پر مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ یہ کوشش اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کرنے کی مقدور بھر سعی بھی کی تھی۔ جب کہ ہمارے جیّد سفرانے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ چونکہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، ہمارا بیانیہ کوئی سننے کو تیار نہیں تو اس اجلاس کی کچھ بھنک ڈان لیکس سے ظاہر ہونے پر سب جانتے ہیں کہ کیا ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ وزیراعظم ہائوس سیکورٹی رسک قرار پایا تھا اور وزیراعظم کے دو مشیروں کو فارغ کرنا پڑا تھا۔ اب بھی سابق وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب سے واپسی پر وہی دہائی دی ہے کہ اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ اتنی قربانیاں دے کر ہم رسوا کیوں ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں تو پارلیمنٹ کیا گونگی بہری ہے۔ وہ کیوں اس قومی اتفاقِ رائے پہ عملدرآمد نہیں کراتی کہ کسی دہشت گرد میں تفریق نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی کسی دہشت گرد گروہ کو پاک سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کسی طور اجازت دی جائے۔ قول و فعل ایک ہو جائے تو سو پیاز اور سو جوتے بار بار ہمارا مقدر کیوں بنیں!.

تازہ ترین