• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کالم کا عنوان ’’بڑے باپ کی بڑی بیٹی‘‘ ہے تو اس عنوان کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی بہادری اور عوام سے قربت کے بارے میں کم سے کم ایک مثال پیش کروں‘ یہ مثال اس وقت کی ہے جب 1970 ء میں تمام سیاسی پارٹیاں اور رہنما پورے ملک میں انتخابی مہم چلا رہے تھے‘ ان دنوں بھٹو سندھ میں انتخابی مہم میں مشغول تھے جس دن کا میں اس وقت ذکر کررہا ہوں‘ اس دن پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ایک رات پی پی کے اس وقت کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ کے پاس ایک رات گزارنے کے بعد سانگھڑ جارہے تھے جہاں انہیں ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کرنا تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو بڑی تعداد میں گاڑیوں کی قیادت کرتے ہوئے ہالا سے سانگھڑ روانہ ہوئے‘ جس گاڑی میں بھٹو سوار تھے اس میں ان کے ساتھ مخدوم طالب المولیٰ اور اس وقت پی پی سندھ کے صدر میر رسول بخش تالپور بھی تھے‘ جب بھٹو کی گاڑی سانگھڑ کے قریب پہنچی تو روڈ کے دونوں طرف درختوں پر کچھ لوگ چھپے ہوئے تھے جیسے ہی ان کی گاڑی اور دیگر گاڑیاں گزرنے لگیں تو دونوں طرف سے ان پر گولیاں فائر کی گئیں ،فائرنگ کی وجہ سے ساری گاڑیاں کھڑی ہوگئیں‘ بھٹو کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلے اور زور دار آواز میں للکارنے لگے کہ ذوالفقار علی بھٹو میں ہوں‘ میرے لوگوں پر گولیاں کیوں چلا رہے ہو چونکہ گولیاں دونوں طرف سے برس رہی تھیں لہذا یہ دیکھ کر کہ گولی ان کے قائد کو نہ لگ جائے پیچھے کھڑی گاڑیوں سے اتر کر پارٹی کارکن بھٹو کے گرد کھڑے ہونے کے بعد انہوں نے زبردستی بھٹو کو نیچے لٹا دیا اور ان کے اوپر لیٹ گئے‘ اس دوران جو گولیاں بھٹو پر چلائی گئی تھیں وہ ان کارکنوں کو لگیں‘ ایک کارکن تو گولی لگنے سے وہیں فوت ہوگیا جبکہ دو کارکن زخمی ہوگئے۔ مخدوم طالب المولیٰ اور میر رسول بخش تالپور نے ذوالفقار علی بھٹو پر زور دیا کہ اس صورتحال میں ان کا سانگھڑ جانا مناسب نہیں ہوگا حالانکہ وہ سانگھڑ جانے کے لئے بضد تھے مگر مخدوم طالب المولیٰ اور میر رسول بخش نے ان کو واپس ہالا جانے پر راضی کرلیا اور جلوس میں چند گاڑیوں کے ساتھ معراج محمد خان کو سانگھڑ بھیجا گیا کہ وہ بھٹو کی بجائے خود جاکر سانگھڑ کے جلسہ عام سے خطاب کریں‘ اس دور میں حیدرآباد سے سندھی زبان میں پی پی کا ترجمان اخبار ہلال پاکستان شائع ہوتا تھا‘ مخدوم محمد زمان سندھ کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتے تھے‘ دوسرے دن ہلال پاکستان میں مخدوم محمد زمان کا ایک قطعہ شائع ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے اب تک یہ تو سنا تھا کہ فلاں شخص شیر کا بیٹا ہے جبکہ (بھٹو کے بارے میں کہا گیا) کہ ’’شیر کا باپ پہلی بار دیکھا ہے‘‘۔
اب ہم شہید بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں ان کا ذکر میں دوسری ہالا کانفرنس کے حوالے سے کروں گا۔ واضح رہے کہ پی پی کی تاریخ میں دو ’’ہالا کانفرنسیں ہوئی تھیں‘‘ پہلی ہالا کانفرنس لاہور میں پی پی کی تشکیل کے فوراً بعد ہالا میں ہوئی تھی جبکہ دوسری ہالا کانفرنس اس وقت ہوئی جب مخدوم خلیق الزمان سندھ پی پی کے صدر تھے۔ پہلی ہالا کانفرنس میں پورے ملک کے پی پی رہنما اور کارکن شریک ہوئے تھے جبکہ دوسری ہالا کانفرنس میں فقط سندھ کے رہنما اور کارکن شریک ہوئے تھے‘ اس وقت غلام مصطفی جتوئی پی پی سے الگ ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنی الگ پارٹی نیشنل پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی‘ اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے پی پی کے ایک رہنما قاضی محمد بخش دھامرا نےاپنی تقریر میں غلام مصطفی جتوئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لڑکی کہتے ہیں‘ ‘ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ ’’کیا بھائی کی لاش کو بیرون ملک سے اپنے ملک لڑکیاں لاتی ہیں‘‘ اس کے بعد انہوں نے انتہائی جذباتی ہوکر کہا کہ ’’محترمہ بے نظیر بھٹو لڑکی نہیں‘ وہ سندھ کا بہادر سپوت ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ اس دور میں شہید بے نظیر بھٹو کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کو فرانس میں زہر دیکر مار دیا گیا تھا‘ اس وقت میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان کی حکومت کو مطلوب تھے‘ وہ یہ لاش لیکر پاکستان نہیں آسکتے تھے جبکہ بیگم نصرت بھٹو جو پہلے ہی بیمار تھیں اور علاج کے لئے بیرون ملک گئی تھیں۔لہذا یہ ذمہ داری محترمہ بے نظیر بھٹو نے ادا کی اور بھائی شاہنواز بھٹو کی لاش لیکر پہلے کراچی ایئر پورٹ پر اتریں اور پھر گاڑیوں کے سوگوار جلوس میںلاڑکانہ پہنچیں اور انہیں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میںبھٹو کی قبر کے نزدیک دفنایا گیا‘ ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بڑے جلوس میں لاڑکانہ سے دادو آئیں‘ اس جلوس میں کراچی کے کچھ صحافی بھی شامل تھے‘ ان میں‘ میں اور ایک سینئر صحافی دستگیر بھٹی بھی شامل تھے‘ دادو آتے ہوئے راستے میں بے نظیر بھٹو خاص طور پر پہاڑوں کے درمیان واقع ’’احمد برہمانی گوٹھ‘‘ کے پاس رکیں ، جہاں گھروں سے نکل کر خواتین اور بچوں نے ان کا استقبال کیا‘ یہ گوٹھ خیرپور ناتھن شاہ کے نزدیک واقع ہے۔
یاد رہے کہ ایم آر ڈی تحریک کے دوران دادو ضلع اور خاص طور پر خیرپور ناتھن شاہ نے جنرل ضیاء کی فورس کا شدید مقابلہ کیا تھا‘ اس حد تک کہ خیرپور ناتھن شاہ و اردگرد کے علاقوں پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ان علاقوں کے کھیتوں میں کاٹن (پھٹی) کی چنائی کرنے والی ہاری عورتوں کو بھی گولیاں لگیں اور ان میں سے کچھ زخمی ہوگئیں‘ خیرپور ناتھن شاہ کے لوگوں نے جس بہادری سے جنرل ضیاء کی فورس کا مقابلہ کیا اس وجہ سے کافی عرصے تک سندھ کے لوگ خیرپور ناتھن شاہ کو ویتنام کہہ کر وہاںکے عوام کو خراج تحسین پیش کرتے تھے‘ بعد میں رات محترمہ نے پی پی کے رہنما پیر مظہر الحق کی رہائش گاہ پر گزاری‘ اس وقت وہاں اتنا رش تھا کہ پیر مظہر الحق‘ دستگیر بھٹی اور میں نے ایک چھوٹے سے کمرے میں سوکر رات گزاری۔
مجھے یاد ہے کہ ابھی صبح کے 8ہی بجے ہوں گے کہ ہمارے کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی ، جب دروازہ کھول کر دیکھا تو ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ دروازے پر کوئی اور نہیں بے نظیر بھٹو تھیں‘ ہمیں دیکھ کر محترمہ مسکرائیں اور پیر مظہر الحق سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں کہ جب ہم رات کو یہاں پہنچے تو یہاں استقبال کرنے والوں میں ایک غریب ہاری خاتون بھی تھیں‘ وہ خاتون میرے قریب آئی اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ محترمہ آپ کل ناشتہ ہم غریبوں کے ہاں کریں‘ محترمہ نے کہا کہ اس غریب خاتون نے جس محبت اور عقیدت سے مجھے ناشتہ کرنے کی دعوت دی تو میں انکار نہیں کرسکی‘ میں نے کہا کہ میں آپ کے یہاں ناشتہ کروں گی مگر ناشتہ فقط میں کروں گی‘ محترمہ نے کہا کہ ان کے گائوں سے کچھ مرد و خواتین مجھے لینے آئے ہیں‘ لہذا میں تیار ہوگئی ہوں اور میں وہاں جارہی ہوں‘ محترمہ نے پیر مظہر کو اس گوٹھ کا نام بتایا اور ان کو لینے کے لئے آنے والے گائوں کے مرد و خواتین کے ساتھ اس گوٹھ میں ناشتے کے لئے روانہ ہوگئیں۔

تازہ ترین