• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب متعلقہ حکام اور ادارے عوامی مسائل کے حل اور لوگوں کی مشکلات کے ازالے میں مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے تولامحالہ عوام کی نظریں کسی مسیحا کی تلاش میں ہوتی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کے ذریعے صحت اورتعلیم کے شعبوں میں پائی جانے والی خامیاں دورکرنے کاجوبیڑہ اٹھایا ہے ، عوام کی جانب سے اس کی اسی لیے پرجوش پذیرائی کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں خصوصی عدالتی کارروائی کے دوران ڈاکٹروں کی ہڑتال،دودھ بڑھانے والے انجیکشنوں اورغیر قانونی شادی ہالوں کے لئے حکم امتناعی ختم کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ اگر صحت اورتعلیم کے مسائل حل نہ ہوئے تو اورنج ٹرین منصوبہ روک دیں گے۔اورنج ٹرین جیسا منصوبہ روک دینے کی اس وارننگ سے بجا طور پر یہی تاثر ملتا ہے کہ حکام کی تمام تر توجہ صرف اس منصوبے تک مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ کی درست نشاندہی کی زد میں آنے والے آلودہ پانی،دودھ کے نام پرفروخت ہونے والے ٹی وائٹنر،اسپتالوں کی خراب مشینیں،مریضوں کوسرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اورمفت ادویات کی عدم فراہمی جیسے مسائل جنم نہ لیتے یا ماضی میں ایسی صورتحال کاتدارک کیا جاسکا ہوتا تو یقیناًسپریم کورٹ کے اس از خود نوٹس لینے کی نوبت نہ آتی۔تاہم ملک کی70سالہ تاریخ میں پہلے بھی ملاوٹ،مصنوعی مہنگائی،عدم صحت وصفائی اوربعض دیگر مسائل کے خلاف کئی مرتبہ مہم چلائی گئی جس کابالعموم کوئی نتیجہ نہیں نکلابلکہ ان مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاآیا ہے۔آج یہ مسائل صرف لاہور یاپنجاب کو نہیں،پورے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کے لئے چیف جسٹس کوبجا طور پر یہ رولنگ دینا پڑی کہ میرا یہ جنون ہے کہ میں اپنے شہریوں کی سہولیات ٹھیک کرکے رہوں،مجھے کوئی یہ نہ بتائے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا۔سپریم کورٹ کے یہ اقدامات بلاشبہ ایک صحت مند معاشرے کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

تازہ ترین