دہلی گیٹ لاہور میں سہ منزلہ عمارت کی چھت گرنے سے میاں، بیوی، دوبیٹوں اور دو راہگیر سمیت چھ افراد کے جاں بحق ہونے کا واقع نہایت افسوناک اور شہری حکومت کیلئے سنجیدہ غورو فکر کا متقاضی ہے۔ہفتہ کی صبح خستہ حال مکان کی چھت زور دار دھماکے سے زمیں بوس ہو گئی ۔ اطلاع ملنے پر امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور سخت کوشش کر کے ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالیں۔ریسکیوحکام کے مطابق زمیں بوس ہونے والے مکان کے اطراف میں گلیاں تنگ ہونے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ جس کی وجہ سے آپریشن مکمل ہونے میں آٹھ گھنٹے لگے۔ریسکیو حکام نے ملحقہ مکانوں کو بھی خطرناک قرار دیتے ہوئے خالی کروا لیا ہے۔2015ءمیں ضلعی انتظامیہ نے اندرون لاہور کی 264عمارتوں کی خستہ حالی کی وجہ سے اُنہیں ناقابلِ استعمال قرار دیا تھا جن میں سے 68عمارتوں کو فوری طور پر گرا دیا گیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والی عمارت میں اُن میں سے ایک ہے۔ملک کے اکثر شہروں میں ایسی کئی کئی منزلہ غیر محفوظ عمارتیں موجود ہیں جو یا تو بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں یا نقشے کے بغیراور ناقص مٹیریل سے تعمیر کی گئی ہیں۔ کراچی میں بھی شہری انتظامیہ 350عمارتوں کے مخدوش ہونے کے نوٹس جاری کر چکی ہے ، مگر آج بھی لوگ وہاں رہائش پذیر ہیں اور کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کمرشل اور رہائشی عمارتوں کی تعمیر کیلئے ملک بھر میں بلڈنگ کوڈ موجود ہے، لیکن اکثر جگہوں پر یہ بلڈنگ کوڈ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر شہر کی بلدیہ یا مقامی انتظامیہ ایسی مخدوش عمارتوں کا سروے کروا کے اُنہیں گرا دے یا ضروری مرمت کے بعد اُنہیں رہائشیوں کیلئے محفوظ بنائے۔ ساتھ ہی ساتھ بلڈنگ کوڈ کو بہتر بناتے ہوئے اُس پر سختی سے عمل بھی کروایا جائے تاکہ آئندہ ایسے حادثات رونما نہ ہو ں۔عوام کو بھی چاہئے کہ ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی مخدوش عمارتوں میں سکونت اختیار نہ کریں۔