• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اخلاقی اور سفارتی حدود سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان پر بھونڈے الزام لگا کر امریکہ کو بیوقوف ثابت کررہے ہیں، یہ لفظ خود ان کے بھارت و صہیونی نواز دانشور سینیٹرز امریکہ کیلئے پاکستان کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کو ایسا ہی سمجھتا ہے جبکہ یہ سراسر الزام ہے، ہم امریکہ کے ساتھ 50کی دہائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُس کا سیٹو اور سینٹو میں ساتھ دیا، کمیونسٹوں کے خلاف ہر اوّل دستہ بنے رہے جبکہ 1965ء کی جنگ میں امریکہ نے ہماری امداد بند کردی جو غیردوستانہ قدم تھا پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی اُس کا ہاتھ تھا تاکہ پاکستان کے طاقتو ر ہونے کا جو تصور 1965ء کی جنگ میں قائم ہوا تھا وہ ختم ہو جائے۔ افغانستان میں سویت یونین کے قبضہ کے دو سال تک ہم اس سےاکیلے مزاحمت کرتے رہے، امریکہ دو سال بعد سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شامل ہوا ہے جب اُس کو یقین ہوگیا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے سکتے ہیں پھرسوویت یونین کو وہاں شکست ہوئی،بلکہ اس خطرے کے پیش نظر کہ پاکستان اور امریکہ مل کر اور فرغانہ نامی ریاست کو معرضِ وجود میں لانے کے لئے سوویت یونین سے نبردآزما ہوں گے تو اس نے 15 ریاستوں کو آزاد کردیا، یہ بات مجھے نومبر 2005ء میں اس وقت معلوم ہوئی جب بھارت کے شہر چندی گڑھ میں ایک روسی خاتون نے پانچ روزہ سیمینار میں اپنے مقالے میں انکشاف کیا۔ یہ ایک عالمی مذاکرہ تھا جس میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، کینیڈا، فن لینڈ اور دوسرے ممالک کے مندوبین شریک تھے جو زیادہ تر انٹیلی جنس برادری سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پاکستان کا وفد سویلین مقررین پر مشتمل تھا جس میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود اور سفیر نجم الدین شیخ شامل تھے۔ اِس موقع پر جنرل طلعت مسعود نے اعتراض کیا کہ ہم ایسا نہیں چاہتے مگر روسی وفد کے سربراہ اس بات مصر تھے کہ یہ درست بات ہے، اس پر میں نے کہا کہ میںمغل ہوں اور میرے آبائواجدادفرغانہ سے آئے تھے تاہم پاکستان کی حدود تک محدود رہنا چاہتے ہیں، اس پر روسی وفد کے سربراہ جو کہ اُس سیشن کی صدارت کررہے تھے جس میں مذکورہ مقالہ پڑھا گیا تھا، نے کہا کہ یہ درست ہے آپ کا یہ منصوبہ تھا چنانچہ ہم نے خاموشی اختیار کرلی، پاکستان آنے کے بعد میں نے جنرل حمید گل سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کا ایسا کوئی منصوبہ تھا تو جنرل صاحب نے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے کیا جواب دیا، میں نے کہا کہ میں نے اور جنرل طلعت مسعودصا حب نے اس کی نفی کی تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ درست ہے کہ ایسا منصوبہ تھا، میرا سوال تھا کہ پھر روس کو کیسے پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے سیکریٹری خارجہ کی تقرری بطور سفیر روس ہوگئی تھی اور اس منصوبے پر ہونے والے اجلاس کی روداد اُن کے ذاتی نام سے بھیجی گئی تو وزارت خارجہ نے ڈپلومیٹک بیگ میں روس بھیج دیا جس کو روسیوں نے نکال کر پڑھ لیا، تاہم اسی وجہ سے روس نے 15 ملکوں کو آزاد کرکے اپنے آپ کو محفوظ قلعے میں بند کرلیا اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں لگ گیا۔ تاہم روس کی اس پسپائی سے امریکہ واحد سپر طاقت بن گیا۔ ، میں نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ امریکہ واحد سپر طاقت بننے کے بعد افغانستان سے نکل گیا اور مجاہدین کو بغیر بسائے نکل پڑا جس کا نزلہ ہم پر پڑا اور کلاشنکوف و ہیروئن کلچر سے دوچار ہوئے۔ جس کے بعد 2016ء میں ہیلری کلنٹن نے اپنی ایک تقریر میں اس کی تصدیق کی انہوں نے مجاہدین منظم کیا اور اس کے بعد ہم وہاں سے نکل آئے۔ اس کے علاوہ مائیکل کریپن جوکہ شریک 2 ڈپلومیسی کے انچارج اور ہنری اسٹمسن واشنگٹن ڈی سی تھنک ٹینک کے سربراہ تھے سے میرا مکالمہ کراچی میں ستمبر 1997ء میں ہوا کہ امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا طالبان کا بوجھ ہم پر چھوڑ کر چلے گئے، جس کو ہم اٹھانے کے قابل نہ تھے، پھر طالبان وہاں قابض ہوگئے اور امریکہ کو پھر ہماری ضرورت پڑی۔ 9/11 کا واقعہ ہوگیا اس وقت پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا مگر امریکہ کب ہمارے ساتھ تھا وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے درپے تھا، اُس مکالمے کے دوران مائیکل کریپن نے کہا کہ اگر ہم واحد سپر طاقت بن گئے تو آپ نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تو حساب برابر مگر میں نے کہا کہ ہمارے نقصانات ایک ٹریلین سے زیادہ ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ 33 ملین ڈالرز کی بات کرتے ہیں امریکہجو ہماری سڑکیں، گزرگاہیں، بندرگاہیں، ہوائی اڈے استعمال کرتے تھا جس کےمعاوضہ کا حساب لیا جائے تو کئی سو بلین ڈالرز بنتے ہیں۔ اس جنگ میں ہمارے 75 ہزار سے زائد افراد شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے، پاکستان کو بلاواسطہ اور بالواسطہ دہشت گردی سے نقصانات ہوا، پاکستان کو مالی نقصانات بھی ہوئے، اس کا تخمینہ 200 بلین ڈالرز کا میں نے اس وقت لگایا تھا اس کے علاوہ اِس جنگ کی وجہ سے ترقی رکی اُس کی مالیت 100 بلین ڈالرز بنے گی۔ امریکہ کو سپر طاقت بننے کی وجہ سے جو مقام اور فائدہ ملا اس میں سے ہمارا 500 بلین ڈالرز کا حصہ بنتا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے ہمیں اس وقت 100 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کو بسانے اور اُن کو دہشت گردی سے روکنے کے لئے ہمیں 100 بلین ڈالرز کی ضرورت تھی۔ یہ تخمینہ میں نے اپنی کتاب Asian Atomic Club میں لگایا ہے۔ اس طرح یہ رقم ایک ٹریلین ڈالرز بنتی ہے۔ ٹرمپ صرف 33 بلین ڈالرز کو رو رہے ہیں اور ہم امریکہ کو اپنا ایک ٹریلین کا مقروض سمجھتے ہیں۔ میں نے اس وقت لکھا تھا کہ ایک ٹریلین ڈالرز کا بل امریکہ کو دے دیاجائے کسی نہ کسی روز یہ پاکستان مل جا ئیں گے کیونکہ دنیا میں امریکہ کی حرکتیں ایسی ہیں کہ وہ پھر پھنسے گا اور پھر ہم سے رجوع کرے گا تو اُن کو یہ رقم ہمیں دینا پڑے گی۔ دوسرے پاکستان نے امریکہ کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ دھوکہ دیا، وہ ہمیں کرائے کے کارندے سمجھتا تھا، ایسا نہیں ہے کہ ہمیں حساب نہ آتا ہو یا ہم اندھے اُن کے نقش قدم پر چل رہے ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کو ہمارا ایٹمی پروگرام نہیں بھاتا وہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹم بم جیسی طاقت نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک اور منجمد کرنے کی کوشش کی، ہم امریکہ کے تو کبھی خلاف نہیں رہے البتہ ہم بھارت کے شر سے ضرور اپنے آپ کو محفوظ بناتے رہتے ہیں۔ اب ایٹم بم تو چھوٹی بات رہ گئی ہے ہم نے ہر سطح کی مزاحمت کی صلاحیت حاصل کرلی ہے، سائبر جنگ کے لئے تیار ہیں، لیزر جنگ، غیرمتحرک جنگ ہو یا ایٹمی ہر طرح کی مزاحمتی تیاری موجود ہے۔ امریکہ کا یہ حال ہے جس کا دوست ہوتا ہے اُسی کو سب سے پہلے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ہماری کئی حکومتیں ختم کیں، ہمارا خیال ہے کہ 2005ء کا زلزلہ اور 2010 ء کا سیلاب امریکہ کا حملہ تھا، اس پر ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں، اس کے علاوہ 2011ء میں تین بڑے واقعات ہوئے ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد اور سلالہ کے واقعات جس میں امریکہ نے پاکستان پربلاواسطہ حملہ کیا۔ اب بھی ہمارے خلاف افغانستان سے بھارت اور افغان انٹیلی جنس سے مل کر دہشت گردی کرا رہا ہے، ہم نے اپنے ملک میں دہشت گردی روکنے کامناسب بندوبست کردیا ہے۔ اب امریکہ ہمارے خلاف چوتھی نسل اور پانچویں نسل کی جنگ مسلط کئے ہوئے ہے جس کا ہماری افواج بے جگری سے مقابلہ کررہی ہیں اور امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی سازشوں کو ناکام بنا رہی ہیں، اس لئے پاکستان دھوکہ باز نہیں، یہ صفت امریکہ میں بہ درجہ اتم موجود ہے۔ اس نے گور باچوف سے وعدہ کیا کہ وہ روس کو مزید تنگ نہیں کرے گا۔ اب یوکرائن کے ذریعے اُسے زچ کررہا ہے۔ اگر صرف پیسے کی بات ہے تو امریکہ ہمارا 2ٹریلین کا مقروض ہے اس کو وہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ ایک ٹریلین پہلی جنگ کا دوسرا ٹریلین ڈالر حالیہ نقصانات کا۔اگر وہ ایسے بیانات سے بھارت کی مارکیٹ روس سے چھیننا چاہتا ہے تو بھی غلط ہے، یہ بھارت کا کام ہے کہ وہ اس کو سمجھے۔ وہ بھارت کی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، یا سی پیک کی وجہ سے خلاف ہے اور افغانستان میںاپنے اڈوں کی حفاظت کا خواہش مند ہے، ان میں سے امریکہ کوئی بھی بات نہیں مانی جاسکتی۔

تازہ ترین