• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ وائٹ ہاوس میں مقیم اس ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کو دھمکی دینے کے لئے محض ایک غیر سنجیدہ ٹویٹ نہیں ہے جسے امریکی صحافی مائیکل وولف نے اپنی کتاب ’’فائر اینڈ فیوری ان سائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاوس ‘‘میں تقریبا دوسو افراد سے کئے گئے انٹرویوز کی روشنی میں ایک جذباتی،غیر متوازن، خوف زدہ ،بے وقوف یا احمق شخص ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے بلکہ یہ پاکستان سے متعلق اسی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کا تسلسل ہے جس کا اعلان وہ بطور امریکی صدر پانچ ماہ پہلے اگست میں کر چکے ہیں۔ افغانستان،پاکستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی امریکی پالیسی میں بھی ٹرمپ نے پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد جیسے الزامات عائد کئے تھے جبکہ اس پالیسی کی وضاحت کے دوران امریکی صدر اور وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے وارننگ دی تھی کہ اگر پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اس وقت بھی دھمکی دی گئی تھی کہ اگر امریکی مفادات پر زد پڑی تو امریکہ پاکستانی حدود میں یک طرفہ کارروائی کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ تب بھی پاکستان کو اربوں ڈالر امداد دینے کا احسان جتاتے ہوئے خبردار کیا گیا تھا کہ ڈو مور پرعمل نہ کرنے کی صورت میں نہ صرف اس امداد میں کمی کردی جائیگی بلکہ پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا اسٹیٹس بھی ختم کر دیا جائیگا۔ اسی امریکی پالیسی میں بھارت سے تزویراتی شراکت داری مضبوط کرنے اور اسے خطے میں بالا دست بنانے کی امریکی ترجیحات کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔ تب بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے یک زبان ہو کر ایک جامع اور موثر رد عمل دیا تھا لیکن اس کے بعد واشنگٹن کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی بجائے سارا وقت آپس کے اختلافات میں صرف کر دیا گیا۔ نتیجہ امریکہ نے پاکستان کو سیکورٹی کی مد میں دی جانے والی امداد اور فوجی سازوسامان کی فراہمی روک دی ہے۔پاکستان کا نام مذہبی آزادی کی مبینہ خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ مزید تین پاکستانیوں اور ایک تنظیم پر پابندی عائد کردی ہے۔ ٹویٹ کے ذریعے امریکی صدر کے پاکستان کو دیئے گئے دھمکی آمیز پیغام اور حالیہ اقدامات کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک بار پھر سر جوڑ کے بیٹھی رہی، وفاقی کابینہ نے بھی جارحانہ امریکی رویئے پر غور و فکر کیا،پارلیمان کی سلامتی کمیٹی نے بھی پاک امریکہ حالیہ کشیدگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ حالات سازگار نہیں ہیں بلکہ امریکہ نے ایک بار پھر مطلب نکل جانے پر آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی گزشتہ 70 سالہ تاریخ ایسے ہی نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی امداد کی بندش پہلی بار نہیں لیکن اس بار واشنگٹن سے آنے والے سگنل زیادہ تشویشناک ہیں کیونکہ بات پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں ڈرون حملوں اور سرجیکل اسٹرائیکس تک آن پہنچی ہے۔ابھی کل کی بات ہے جب امریکہ نے ایبٹ آباد کے انتہائی حساس علاقے میں واقع کمپاؤنڈ میں موجود القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کیخلاف کارروائی کی ہمیں تب خبر ہوئی جب امریکی میرینز،بلیک ہاکس اور چینوکس پاکستان کی فضائی حدود پار کرکے واپس جا چکے تھے۔ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد مکمل طور پر معطل کرنے کے ساتھ جب ایک بار پھر پاکستانی حدود میں یک طرفہ کارروائی کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جو یہ پاکستان کے زخم ہرے کرنے کیلئے کافی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورہ اسلام آباد اور ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے بلکل واضح کردیا ہے کہ جب تک پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تب تک فوجی امداد بند رہے گی۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ریل ازم تھیوری کے مطابق ریاست کا کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں جو اس کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوریاستوں کے درمیان تعلق انہی مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کو بھی ریل ازم کے نظر سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے مفادات یکجا ہوئے پاکستان اور امریکہ نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما لیکن جیسے ہی مطلب پورا ہوا ،امریکہ نے پاکستان کو طلاق دے دی۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس پر امریکہ کے دورے کو ترجیح دی جسے آج بھی بعض دانشور ہدف تنقید بناتے ہیں۔ مگر وہ یہ تلخ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ نئی ریاست کو درپیش سیکورٹی خطرات کے پیش نظر پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بننے میں ہی عافیت جانی تھی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ نئی ریاست کی مشرقی سرحد پر درپیش سیکورٹی چیلنجز نے ملک کی خارجہ پالیسی کوہمیشہ کیلئے یرغمال بنا لیا۔ پاکستان 1954 میں سیٹو اور سینٹو یا کولڈ وار کے دفاعی معاہدوں میں داخل ہو گیا اور انکے تحت امریکہ سے خطیر فوجی امداد حاصل کی۔
سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکہ کی ضرورت بن گیا کیونکہ اسے جنوبی ایشیا میں کمیونزم کا مقابلہ کرنا تھا جبکہ پاکستان نے اپنے دفاع کو مضبوط کرتے ہوئے اپنی بقا کو یقینی بنانا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے اگلے دس سال کے دوران تین ارب ڈالر سے زائد امداد حاصل کی جس کا بڑا حصہ جنرل ایوب خان کے دور میں ملا۔ 1965 ءکی جنگ میں جب پاکستان نے امریکی امداد سے حاصل کئے جانے والے ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال کئے تو امریکہ نے فوجی امداد روک دی۔سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کی امداد بحال کردی گئی اور 1980 سے 1990 کے درمیان تقریبا 5ارب ڈالر کی امداد ملی جسے جنرل ضیا نے مونگ پھلی قرار دیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے افغان جنگ کے دوران تعاون کے بدلے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی صرف نظر کیا لیکن افغان جنگ کا خاتمہ ہوتے ہی خطے میں امریکی مفاد کم ہونے پر سینئر جارج بش نے پریسلر ترمیم کے تحت ایٹمی پروگرام کو جواز بنا کر دوبارہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔1990 کی دہائی میں پاکستان امریکی امداد سے محروم رہا لیکن اسی دوران آسان قرضوں کی صورت میں سعودی عرب سے ملنے والے تیل نے ملک کی معیشت کو سہارا دیئے رکھا۔ نائن الیون کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑگئی اور واشنگٹن نے اسلام آباد سے رجوع کر لیا تاہم اس وقت بھی اسٹک اینڈ کیرٹ والی پالیسی اختیار کی گئی جبکہ پاکستان میں برسر اقتدار آمر پرویز مشرف تو پہلے ہی امریکہ سےبھرپور تعاون کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ یوں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے القاعدہ اور افغان طالبان پر حملے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بیسز سمیت ہر طرح کا تعاون اور سہو لتیں فراہم کیں۔ امریکی کانگرس کے اعداد شمار اور امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان کو اس خدمت کے عوض سال 2002 سے 2015 کے دوران40 ارب ڈالرز دیئے گئے۔ کیری لوگر بل کے علاوہ پاکستان کو زیادہ تر امداد آمروں کے دور حکومت میں ہی دی گئی۔ اب تقریبا ڈیڈھ دہائی پر محیط طویل جنگ میں تقریبا ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کو مروانے اور ایک ہزار ارب ڈالرز جھونکنے کے بعد امریکہ کے لئے با عزت واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں چنانچہ اب اسے اپنے مفادات پرقربان کرنے کے لئے پاکستان کی شکل میں بکرا چاہئے۔ حکومت پاکستان نے جذباتی ردعمل دینے کے بجائے سفارتی ذرائع سے معاملات کو سلجھانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے لیکن بہرحال پاکستان کو حقانی نیٹ ورک سمیت افغان طالبان سے متعلق پالیسی کو ری وزٹ کرنا ہو گا کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی نہیں مل رہی۔ پاکستان کا چین، روس،ترکی اور ایران سمیت نئے بلاک کی طرف رجحان درست اقدام ہے لیکن اسے ریل ازم تھیوری کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جس میں ریاستوں کے تعلقات کو مفادات کی کسوٹی پہ پرکھا جاتا ہے۔ پالیسی سازوں کو امریکہ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اس کے مفادات بدستور پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں اور امریکہ پاکستان کو مائنس کر کے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت کسی بھی پالیسی کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔ امریکہ کو اس کے مفادات کی یاد دہانی کرانے کے لئے نیٹو سپلائی کی بندش، زمینی اورفضائی راستوں کے استعمال پر پابندی ،طالبان سے مذاکرات اور مضبوط جوہری پروگرام جیسے ترپ کے پتے اب بھی پاکستان کے ہاتھ میں موجود ہیں۔

تازہ ترین