• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے سیاسی اور بین الاقوامی حالات بہت کشیدہ ہیں، جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی گراں قدر خدمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، اس وقت تمام تر اندرونی اختلافات ختم کر کے ایک قومی بیانیہ کی تشکیل اور اس پر عمل کی ضرورت ہے ۔ یہ قومی بیانیہ تب ہی سامنے آ سکتا ہے جب ہم اپنے نظام ِحکومت کو مربوط انداز میں چلانے کی کوشش کریں ، ایسی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک سیاستدان، حکمراں اپنے ذاتی مفادات کی لڑائیاں لڑتے رہیں گے ۔ ہم نے بحیثیت قوم سوچنے کی روش ترک کرتے ہوئے سسٹم کو کھوکھلا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے عام شہری کے لئے انصاف اور اپنے حقوق حاصل کرنا ہی ناممکن ہو گیاہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لیڈر شپ کا اس طرف نہ دھیان ہے اور نہ ہی اُن کی ترجیحات میں شہریوں کے بنیادی حقوق کوئی وقعت رکھتے ہیں ۔ آج کے کالم میں ڈاکٹر اقبال حسین کی کہانی سامنے رکھ رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح نظام حکومت کو تباہ و برباد کر کے شہریوں کے ذہنوں میں اس مملکت کے قیام کے مقصد کے خلاف بیج بویا جارہا ہے ۔
مجھے (اقبال حسین اسد)16فروری1984 کو نوٹیفکیشن کے مطابق پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لائبریرین کی آسامی پر گریڈ سولہ میں رکھا گیا ، پھر تعلیمی قابلیت ایم اے ہونے کی وجہ سے تصحیح کرتے ہوئے 19مارچ 1986کے نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ سترہ دے دیا گیا۔ جبکہ 31اکتوبر 1995ء کو محکمے نے لائبریرین کی ترقی کے لئے پہلا اسٹرکچر جاری کیا ۔ اس طرح کل 332کالج لائبریرین کی آسامیاں پیدا کی گئیں جن میں گریڈ 16کی 137اسسٹنٹ لائبریرین ، گریڈ 17کی 173لائبریرین، گریڈ 18کی 16سینئر لائبریرین اور گریڈ 19کی 6چیف لائبریرین کی نشستیں شامل تھیں۔ 1997ء میں گورنر پنجاب کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق جن کے پاس ماسٹر ڈگری ہے انہیںگریڈ 17میں ترقی دے دی جائے گی۔ ان رولز کے تحت گریڈ 18میں ترقی دینے کے لئے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ٹریننگ کورس کرایا گیا جس میں نہ صرف شامل تھا بلکہ 29مارچ 2006ء کو محکمانہ پرموشن کمیٹی کے اجلاس میںمیرا کیس پیش ہوا۔ لیکن غلط اعتراض لگا کر میراکیس زیر التوا میںرکھ دیا گیا کہ سروس کا دورانیہ پورا نہیں ۔ حالانکہ میں تو پبلک سروس کمیشن سے گریڈ 17میں لائبریرین1986ء میں منتخب ہوا تھا مگر مجھے کسی کلرک نے آرڈر دیکھے بغیر اسسٹنٹ لائبریرین سمجھ لیا حالانکہ 16مارچ 2005ء کو محکمہ کی طرف سے جو سنیارٹی لسٹ جاری کی گئی اس میں دوسرے نمبر پر تھا۔ محکمہ ایجوکیشن نے 16جولائی 2009ء کو یہ لیٹر جاری کیا کہ جن لوگوں نے1995ء سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اُن کو پرموشن ا سٹرکچر میں شامل کیا جائے گا۔ میں تو 1984ء سے ماسٹر ڈگری ہولڈر اور فل لائبریرین تھا۔اس طرح 2012ء میں دوبارہ ہونے والی ڈی پی سی میں مجھے جان بوجھ کر گریڈ 16کا لکھ کر میرا کیس ترقی کے لئے نہ بھیجا گیا کیونکہ میں نے محکمہ کے اندر موجود ’’ پرموشن مافیا‘‘ کی ضروریات پوری نہ کیں۔ حالانکہ 3نومبر 1998ء کے نوٹیفکیشن میں محکمہ نے مجھے گریڈ 18میں موو اوور دیا اور پوری سروس اس کے فائدے دیئے جاتے رہے ۔ آج میں 34سال مکمل کرنے کے بعد جس گریڈ میں بھرتی ہوا تھا اسی میں ریٹائرڈ ہو گیا ہوں۔ دل کا مریض ہوں میری اہلیہ بھی بیمار ہے ۔
محکمہ کی ریڈٹیپ ازم اور کارندوں نے چند پیسوں کی خاطر نہ صرف میرے ساتھ زیادتی کی بلکہ پورے سسٹم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ میں 30 سال سے اپنے جائز اور قانونی حق کو حاصل کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں اور میں پہلا لائبریرین ہوں جس نے اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ میں نے تنگ آکر سروس کے آخری دنوں میںعدالت عالیہ سے رجوع کیا جس نے سیکرٹری ایجوکیشن کو میرا مسئلہ حل کر نے ہدایت جاری کی مگر اس نے عمل درآمد نہ کیا۔ اب میں ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیا کے ذریعے اپنی آواز اٹھا رہا ہوںتاکہ جونا انصافی میرے ساتھ کی گئی ہے اس کا ازالہ ہو سکے اور سسٹم کے اندر جو خرابیاں موجود ہیں یا جو کلرک شاہی اور نوکر شاہی اس ملک کی اساس کے خلاف لگی ہوئی ہے اس کی روک تھام ہو سکے۔ کیا وزیراعلیٰ اس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے؟
یہ کیس صرف ڈاکٹر اقبال حسین کا ہی نہیں ۔ یہاں تو ہر محکمہ میں خصوصاً محکمہ ایجوکیشن اور محکمہ صحت میں بغیر رشوت کے کسی کی ترقی ہی نہیں ہوتی ۔ کئی لوگ جو دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں وہ 25سال سے ایک ہی گریڈ میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف چند سکوں کے عوض سالانہ خفیہ رپورٹیں بھی بنا دی جاتی ہیں اور انکوائریوں کے باوجود ترقیاں دے دی جاتی ہیں، ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ چونکہ ہمارے خادم اعلیٰ تعلیم اور صحت سے محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتے ، اس لئے انہیں پنجاب بھر کی لائبریریوں کی صورتحال بتانا چاہتا ہوں جس سے وہ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم خود کس طرح نوجوانوں کو علم اور کتاب سے دور رکھنے کی سازش کر رہے ہیں ۔ پنجاب کی 12کروڑ آبادی کے لئے صوبہ بھر میں کل 176 پبلک لائبریریاں ہیں ۔ اس لحاظ سے تقریباً چھ لاکھ افراد کے لئے ایک لائبریری ہے اور یہ کوئی ایک سال میں قائم نہیں ہوئیں بلکہ 1947ء سے آج تک وزیراعلیٰ کی سرتوڑ کوششوں اور ہر تحصیل میں موجود میونسپل انتظامیہ ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ، ویلفیئر آرگنائزیشن ، پرنسپل لائبریریز ، ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز اور کنٹونمنٹ بو رڈ وغیرہ کا بھی حصہ ہے ا ور یہ لائبریریاں نہ تو کوئی بڑی عمارتوں میں ہیں اور نہ ہی ایئرکنڈیشن ، ان میں سے تو اکثر ایک کمرےپر مشتمل اور بوسیدہ حالت میں ہیں۔ یہ لائبریاں شہریوں کے استفادےکے لئے نہیں بنائی گئیں بلکہ اس فارمولا کے تحت قائم ہوئیں جیسے ایک گھر میں اگر ڈرائنگ روم اور کچن ہے تو اسٹور بھی لازمی ہے ۔ جب لائبریریوں کے حوالے سے ہماری ترجیحات یہ ہونگیں اور لائبریری سائنس میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے اقبال حسین جیسے افراد کے ساتھ یہ سلوک ہوگا تو پھرکتاب سے دوری کے ذمہ دار صرف اور صرف حکومت اور حکمراں قرار پائیں گے جو سسٹم کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ درخواست کہانی ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے جو چھوٹی عدالت سے لیکر عدالت عظمیٰ تک، ایک محکمانہ سربراہ سے لیکر صوبے کے وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور صدر مملکت کے سامنے رکھی جا رہی ہے ، دیکھتے ہیں اس ملک سے محبت کی خاطر کون نوٹس لیتاہے!۔

تازہ ترین