• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا پاکستان فقط مخصوص بحرانی کیفیت میں ہی نہیں کہ مملکت کا یہ منفی امتیاز تو قیام پاکستان کے بعد سے تادم تحریر موجود چلا آرہا ہے، لیکن اب مملکت اور قوم روایتی اقتصادی و سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ ایسے چیلنجز سے نپٹنے میں بھی مصروف عمل اور کامیاب ہورہی ہے جو پاکستان میں مسلسل بحرانی کیفیت کا سبب بنتے رہے۔ اس میں کامیابی بھی ہورہی ہے لیکن اس کامیابی کےردعمل میں نئے چیلنجز بھی پیدا ہورہے ہیں۔
ہماری سیاسی و حکومتی تاریخ کی بڑی خرابی یہ رہی کہ امور مملکت چلانے میں قوم کو کسی طور شامل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ لہٰذا پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور انتظامیہ نے آئین کے تابع رہنے کی بجائے سول حکومتیں منتخب ہونے اور فوجی مسلط ہونے کے بعد اپنا ہی نظام حکومت قائم کر کے ان پر چلتیں رہیں۔ ایسے میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنا آئینی اور جمہوری کردارادا کرنے کی بجائے سول اور فوجی آمروں کی ٹوڈی بن کر رہ گئیں۔ آئین 1973ء کے نفاذ کے بعدبھی ہر انتخاب اور ہر فوجی حکومت کے قیام کے بعد اس انداز حکومت سے ملک میں متفقہ اور بظاہر نافذ العمل آئین کے متوازی طرز حکومت قائم ہوا جس نے آج طاقت ور مگر زخمی اسٹیٹس کو کی شکل اختیار کر لی ہے، جو قومی شرکت کے ساتھ برپا تبدیلی کے عمل کو دھڑلے سے ہر حال میں روکنے کے درپے ہے اور مکمل بپھرا ہوا۔ قیام پاکستان سے 1971ء میں سقوط ڈھاکہ تک کی تو بحرانی کیفیت کی وجہ بڑی منطقی تھی کہ ملک کسی متفقہ دستور سے محروم رہا۔ یوں بے آئین مملکت بحرانی ہی رہی، 1956ء کے کافی حد تک متفقہ دستور کے نافذ ہونے سے پہلے پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد امور مملکت میں حقیقی قومی سیاست کی بیدخلی سے جو مصنوعی استحکام پیدا ہوا وہ مسلسل متنازع ہی رہا حتیٰ کہ ملکی سالمیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوا۔
بعد از نفاذ آئین 73، عملاً نفاذآئین میں ہر دو طرز کی حکومتوں، سول اور فوجی، کی طرف سے جو رکاوٹیں اپنے مفادات کے تحفظ میں پیدا کی گئیں، وہ بالآخر 2007-08ء میں وکلا تحریک برائے آزاد عدلیہ کے ذریعے چیلنج ہوگئیں۔ سیاسی جماعتوں کی عملاً تائید تو اس تحریک کو تب ملی جب تحریک ملک گیر ہو کر بھرپور عوامی تائید سے ثمر آور ہوئی، اس کی تائید دونوں پاپولر سیاسی جماعتوں کے خود ساختہ جلاوطن حکمرانوں کی بڑی سیاسی ضرورت بھی بن گئی۔ وگرنہ، اس کےباوجود کہ وکلا تحریک نے این آر او (دونوں جلاوطن سابق حکمرانوں کے لئے نجات) کے مواقع پیدا کئے، پیپلز پارٹی کو انتخاب جیت اور حکومت بنا کر آزاد عدلیہ کا قیام گنوارا نہ تھا۔ آزاد عدلیہ کے قیام کے لئے بے پناہ عوامی دبائو اور میڈیا کے طیور کو سمجھتے ہوئے اگرچہ میاںنوازشریف کو اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دینا ’’پڑی‘‘۔ اس لئے کہ ان کے اقتدار میں تیسری بار آکر آزاد عدلیہ کی جانب آج کارویہ یہ ہی واضح کررہا ہے کہ قوم کے کرداراور واضح رائے کو دیکھتے ہوئے اسوقت میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے رویے پر وکلا اور عوامی ردعمل کا درست اندازہ لگاتے ہوئے راست اقدام کا فیصلہ کیا تھا، آج ان کا پوری قوم کو عدلیہ کے جاری تسلیم شدہ کردار کے خلاف، اسے متنازع بنانے کی تگ و دوواضح کررہی ہے کہ میاں صاحب نے عدلیہ کی بحالی کا فیصلہ کیا نہیں تھا، بلکہ انہیں قومی سطح پر اس وقت کی عدلیہ نواز صورتحال میں ایسا کرنا پڑا۔
امر واقع یہ ہے کہ اسٹیٹس کو سے لڑتے بھڑتے قوم نے اپنے طویل بیمار اور طویل سیاسی سفر میں اپنی ہی تگ و دو سے دو عظیم کامیابیاں، عدلیہ کا اطمینان بخش حد تک آزاد اور غیر جانبدارانہ ہونا اور فوج میں انتظامی امور میں عدم مداخلت کی قومی ضرورت کا احساس، جسے اسٹیبلشمنٹ بہت حد تک سرعام تسلیم بھی کررہی ہے اور اس پر عمل بھی۔
دوسری جانب جناب نوازشریف، اپنے رکن اسمبلی کی رٹ پٹیشن کے مسترد ہونے کے بعد بپھر گئے ہیں کہ عدلیہ نے عمران خان کو ان کی طرح نااہل کیوں نہیں کیا۔ وہ یہ نظرانداز کررہے ہیں کہ آج کی عدلیہ مختلف ہے۔ نہ یہ ڈوگر کورٹ ہے نہ قیومی۔ اس نے عمران خان کے دست راست کو نااہل کردیا اور ان (میاں صاحب) کے پورے خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کھولنے کی درخواست بھی مسترد کردی ہے جبکہ زبان زد عام تھا کہ یہ کیس دوبارہ قابل سماعت ہوگیا تو پورا خاندان سزا سے نہ بچ سکے گا۔
آج کی عدلیہ کی حقیقت یہ ہے کہ اسے دبائو میں لایا جاسکا ہے، نہ خریدا اور نہ اس پر حملہ ہوسکا۔ جو ابلاغ اس کے خلاف جناب میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی طرف سے ہورہا ہے وہ زبانی کلامی اور اس کے فیصلے پر عمل درآمد ہونے کے بعد کی کیفیت کا سیاسی نوعیت کا اظہار ہے۔ جناب نوازشریف جنہیں تین مرتبہ وزارت عظمیٰ نصیب ہوئی اپنی صاحبزادی کے ساتھ مل کر جس طرح اس کے خلاف تبرہ کررہے ہیں، اس نے قومی سیاسی عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کہ خود ان کی اپنی جماعت کا ایک بڑا دھڑا ان کے اپنے دل و جان سے تابعدار برادر صغیر کی قیادت میں اداروں سے نہ ٹکرانے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ قومی سیاست کے علاوہ خود ن لیگ کی اپنی پیچیدگی بھی ہے جس سے پورا سیاسی و جمہوری عمل، قبل از الیکشن 18ء آلودہ اور گنجلک ہورہا ہے۔ وہ آج بھی جلسوں کی عوامی عدالت سے آئینی عدلیہ کے فیصلے کو متنازع بنا رہے ہیں۔ اس میں ان کی لاڈلی صاحبزادی ان کے شانہ بشانہ ہیں، یقیناً اتنے تلخ تجربات کے بعد اپنی اتنی لاڈلی بیٹی کی سیاسی تربیت مطلوب سے الٹ کر رہے ہیں۔
کون اس پر مطمئن ہوگا؟ کہ اس انداز کی سیاست اختیار کرنے کے بعد محترمہ ایک ذمے دار سیاسی لیڈر بن سکیں گی کہ عدلیہ کے احترام میں اسے قومی تحریک کا عظیم حاصل سمجھتے ہوئے ایک طرف اور ان کی پارٹی کے بڑے دھڑے سمیت میاں صاحب اور صاحبزادی پوری قوم کے مقابل دوسری جانب، کتنی پیچیدہ ہوگئی ہے ہماری قومی سیاست؟

تازہ ترین