• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )
ہمارے چیف جسٹس صاحب کو شکایت ہے کہ سپریم کورٹ کا تمام تر وقت سیاسی نوعیت کے مقدمات نمٹانے میں بسر ہوجاتا ہے۔ یہ وقت پاکستان کے عام شہری کو انصاف کی فراہمی کے لئے تھا۔ یہ بات البتہ واضح نہیں کہ سپریم کورٹ اپنے آئینی اختیار کی تشریح اس طرح کیوں کرتی ہے کہ اسے سیاسی معاملات میں الجھا لیا جاتا ہے اور وہ عام شہریوں کے کیسز پر توجہ دینے کے لئے وقت نہیں نکال پاتی ؟ ان کے مقدمات کا عشروں تک فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ تو کیا ایک بار پھر افتخارچوہدری کی طرز کی عوامی مقبولیت سے متاثر جوڈیشل فعالیت کا دور واپس آچکا ؟گلیوں میں چلنے والی مہم اور میڈیا ٹرائل اس مقبولیت کو مہمیز دیتے ہیں، نہ کہ جذبات سے ماورا اصول۔
سپریم کورٹ نے عمران خان نااہلی کیس کے قابل ِسماعت ہونے کی حیرت انگیز دلیل دی۔۔۔’’ اس مرحلے پر یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم نے عوامی مفاد کے پیش ِ نظر اپنی بنیادی ذمہ داریوں میں سے وقت نکالا ہے کیونکہ پاناما انکشافات کے بعد بدعنوانی کے خلاف بلندہونے والی عوامی صدائے احتجاج اس امر کی متقاضی ہے۔ وگرنہ ایک منتخب شدہ قانون ساز کو نااہل قرار دینے کے کیس کی سماعت کے لئے الیکشن ٹربیونل یا، اور اگر نااہلی کی طرف اشارہ کرنے والے حقائق طے ہوجاتے ہیں،ملک کی فاضل ہائی کورٹس کی طرف رجوع کیا جاتاہے۔ ‘‘
کیا سپریم کورٹ نے یہ طے کرلیا ہے کہ 184(3)کے تحت کارروائی کے لئے عوامی پذیرائی کو مد ِ نظر رکھا جائے گا؟ کیا سیاسی جولانی اور میڈیا کی کوریج اس بات کا تعین کرے گی کہ کوئی ایشو عوامی اہمیت کے میزان پر پورا اترتا ہے ؟ پاکستان تحریک انصاف پر غیر ملکی فنڈنگ لینے کے الزام کی تحقیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کہتی ہے۔ ۔۔’’اس عدالت کے لئے مناسب ہوگا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اُس اختیار اور آئینی استحقاق میں مداخلت کرنے سے گریز کرے جو پولیٹیکل پارٹی آرڈر کے تحت خصوصی فورم، جیسا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو تفویض کیے گئے ہیں۔ ‘‘
اگرسپریم کورٹ آرٹیکل 17 کی تشریح کرتے اور اسے پولیٹیکل پارٹی آرڈر کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہوئے اپنا ہاتھ روک لیتی ہے تو پھر آرٹیکلز 62/63کو عوامی نمائندگی کے ایکٹ اور آرٹیکل 225 کو ملا کر پڑھتے ہوئے یہ طرز عمل اختیار کیوں نہیں کیا جاتا ؟ جہانگیر ترین کیس میں اس احتیاط کا مظاہرہ کیوں نہ کیاگیا کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اسپیکر قومی اسمبلی کو حاصل اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مزید برآں، یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ مقدمات پر کارروائی دستیاب نچلی ترین سطح سے شروع کی جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ان مقدمات کی سماعت بہت نچلی سطح پر نہیں تو کم از کم ہائی کورٹس میں ہی شرو ع کی جائے تا کہ سزا پانے والوں کے پاس کم از کم سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود رہے ؟
عمران خان کیس میں سپریم کورٹ کا استدلال جہانگیر خان ترین کیس کے استدلال سے بالکل مختلف ہے۔ جہانگیر خان ترین کو ایک ٹرسٹ کے تحت چلنے والی ایک سمندر پار کمپنی ، جو برطانیہ میں ایک جائیداد رکھتی تھی، سے ملنے والے مالی مفاد کو ظاہر نہ کرنے کے الزام میں نااہل قرار دے دیا۔ہر چند عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جہانگیر ترین نے وہ جائیداد جائز ذرائع سے خریدی تھی۔ اُنھوں نے وہ رقم بنک کے ذریعے باہر بھجوائی تھی۔ اُن کے پاس یہ دلیل بھی موجود تھی کہ اُنھوں نے وہ جائیداد اپنے بچوں کو دے دی تھی جنہوں نے اپنے دولت ٹیکس میں اسے ظاہر کیا تھا۔ اس کے باوجود عدالت نے مسٹر ترین کو بددیانت چاہے نااہل قرار دے دیا۔ گویا سپریم کورٹ کا فوکس فائدہ اٹھانے والے مالکانہ حقوق پر ہے۔ یہاں وہ ایک تحقیقاتی ادارے کا انداز اپنا کر مالیاتی پردے کے پیچھے جھانکتے ہوئے انصاف کرتی ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے کیس میں سپریم کورٹ کیس کے مالی پہلو کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کا صرف قانونی پہلو دیکھتی ہے۔ عمران خان کو دیانت داری کی کلین چٹ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کہتی ہے۔ ۔۔’’ مدعاعلیہ کی طرف سے ایک ٹرسٹ کمپنی کو اپنے اثاثے کے طور پر ظاہر کرنے میں ناکامی کو ہم اثاثے چھپانے ، یا بددیانتی کا ارتکاب کرنے کے متراد ف نہیں سمجھتے، خاص طور پر اُس وقت جب یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس کمپنی کو چھپا کر کون سا مالیاتی یا کوئی دیگر مفاد حاصل کر سکتے تھے ؟‘‘ تو جہانگیر ترین نے اُس کمپنی کو ظاہر نہ کرکے کون سامفاد حاصل کیا ؟
جہانگیر ترین کیس میں عدالت اپنے صوابدیدی اختیار کو بہت سخت انداز میں استعمال کرتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے مختلف جج حضرات یکساں شواہد سے مختلف نتائج نکال سکتے ہیں۔ عمران خان کیس پر غور کریں۔ سپریم کورٹ پیرا نمبر 59 میں کہتی ہے۔ ۔۔’’اگر لندن فلیٹ غیر ملکی آمدنی سے خریداگیا ، جبکہ وہ اُس وقت پاکستان میں مقیم نہیں تھے ، تو بھی وہ ایک اثاثہ تھا ، اور جب وہ 1981 ء میں فائلر بنے، اسے اپنے ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے میں ظاہر کرنے کے پابند تھے۔ اس لئے مدعاعلیہ ویلتھ ٹیکس ایکٹ کے تحت اپنے فرض کی انجام دہی میں ناکام رہے۔ یہ صورت ِحال یکم مارچ 2000 ء تک جاری رہی۔۔ ۔‘‘
لیکن اس درخواست، کہ عمران خان نے 1997 ء میں الیکشن کے کاغذات جمع کراتے وقت لندن فلیٹ کا ذکر نہیں کیا تھا، کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کہتی ہے۔ ۔۔’’ اس درخواست میں سائل کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر محض اندازے سے کام لے رہا ہے۔ زیر ِ نظر ڈاکو منٹ بیس سال پرانا ہے ، جس کا الیکشن کمیشن کے پاس ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ اُس وقت کاغذات ِ نامزدگی قبول کیے گئے لیکن مدعاعلیہ الیکشن ہار گیا۔ اس لئے یہ باب بند ہو ا۔ ‘‘
اس طرح یہ بیان کرتے ہوئے کہ لندن فلیٹ کا کبھی بھی کاغذات میں ذکر نہ کیا گیا، سوائے 2000 کی ایمنسٹی اسکیم کے ، سپریم کورٹ تین کام کرتی ہے۔ پہلا ، یہ عمران خان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے فرض کرتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُنھوں نے 1997 ء کے کاغذات نامزدگی میں لندن فلیٹ کو ظاہر کردیا ہو(حالانکہ اُنھوں نے 1999 ء تک ایسا نہیں کیا تھا)۔ دوسرا ، یہ تحقیقات کرنے سے گریز کرتی ہے ، اور تیسرا ، یہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ڈال دیتی ہے۔ فاضل عدالت ایسا کرتے ہوئے قانون ِ شہادت کے آرٹیکل 122 کو استعمال نہیں کرتی۔ عدالت عمران خان کواُن حقائق کی وضاحت کرنے کا نہیں کہتی جو سامنے لائے گئے تھے ، جیسا کہ اس نے جہانگیر ترین کیس میں کیا ہے۔
عدالت اس کیس کا نتیجہ نکالتے ہوئے کہتی ہے کہ عمران خان کا واحد سمندر پار اثاثہ لندن فلیٹ تھا، اور جب ایک مرتبہ وہ فلیٹ فروخت کردیا گیا، وہ باب بند ہوگیا۔ سپریم کورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ’’این ایس ایل‘‘(نیازی سروسز لمیٹڈ )فعال رہی ، اور یہ ایک عدالتی حکم کے تحت کرایہ وصول کرتی رہی۔ چنانچہ 2006ء سے لے کر 2010ء کے درمیان واجب الادا رقم ، بیالیس ہزار پائونڈنیازی سروسز لمیٹڈ نے عمران خان کے لئے وصول کیے لیکن ان فنڈز کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اسے ظاہر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ایک وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کو معمولی اثاثے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دے دیا گیا۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم کورٹ کو عمران خان کو نااہل قرار دے دینا چاہیے تھا۔ لیکن پھر جہانگیر ترین (اور اسی طرح نواز شریف) کو بھی نااہل نہیں قرار دینا چاہیے تھا۔ لیکن ان دونوں افراد کا ٹرائل 184(3) کے تحت کیا گیا اور معمولی سی بنیاد پر بددیانت قرار دے دیا گیا۔ اداروں کے اختیارات کے حوالے سے بات کی جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کا دائرہ بڑھاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے دفاتر کے استحقاق کو خود استعمال کیا۔ 62/63 کی نئی تشریح ظاہر کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کو آئینی فورمزپر اعتماد نہیں رہا۔ ان اداروں کی حتمی اپیل بھی سپریم کورٹ نے ہی سننی ہوتی ہے۔ ایسا کرنے سے طاقت کا توازن منتخب شدہ اداروں، جیسا کہ ایگزیکٹو اور قانون ساز، کی بجائے غیر منتخب شدہ اداروں کی طرف جھکتا محسوس ہوتاہے۔
قانونی حوالے سے سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیارات کی توسیع ملزم کو بنیادی حقوق سے محروم کرتی ہے۔ 2010 ء میں متعارف کرائے جانے والے آرٹیکل 10A کو کئی ایک فیصلوں نے غیر فعال بنا دیا ہے۔ نواز شریف، عمران خان اور جہانگیر ترین کے فیصلوں میں سپریم کورٹ نے اس بات پر غور تک نہیں کیا کہ کیا آرٹیکل 10A کے بعد 184(3)کے استعمال کے لئے قدرے مختلف سوچ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کو الٹتے ہوئے سپریم کورٹ اس بات پر غور نہیں کرتی کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت جھوٹے بیان کی سزا تین سال قید ہے۔
اس صورت ِحال نے قانون کی یکساں عملداری پر یقین متزلزل کردیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کس وقت کون سی آئینی شقیں کس کے ساتھ ملا کر پڑھی جائیں گی۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سا کیس الیکشن کمیشن یا ہائی کورٹس کے پاس جائے گا، اور کس کی سماعت عدالت ِعالیہ خود کرے گی؟ہمیں نہیں پتہ کس وقت بھول چوک کو بددیانتی تعبیر کیا جائے گا اور کس وقت عدالت تحقیقاتی ادارے کا کردار بھی سنبھال لے گی؟ سب سے اہم ،کون سا عوامی شور عدالت کے حسن سماعت کو متاثر کرے گا اور کس سے صرف نظر کیا جائے گا؟

تازہ ترین