• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کیلئے دھمکی آمیز تاریخی ٹوئٹ کے بعد امریکی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے بھی اپنے صدر کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے امریکی میڈیا سے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو اپنی حدود میں پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے یہ بات امریکہ کو قابل قبول نہیں یہ دہشت گرد امریکہ کے لئے خطرہ ہیں یہ بات ہم نے پاکستان پر واضح کردی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ’’گاجر اور چھڑی‘‘ کے محاورے کے مطابق پاکستان کے لئے امریکی امداد کے مشروط ہونے کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ ’’اگر پاکستان یہ مسئلہ (دہشت گردوں کو پناہ) حل کرتا ہے تو ہم ان کے ساتھ بطور پارٹنر تعلق بھی جاری رکھیں گے لیکن اگر ایسا نہ کیا تو ہم امریکہ کی حفاظت کریں گے۔ ہم نے انہیں (پاکستان کو) چانس دیا ہے‘‘۔ سی آئی اے کے سربراہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکی کا ذکر بھی کیا۔ اسی روز 7؍جنوری کو امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’افغانستان میں جنگ کے لئے ملٹری سپلائی لے جانے کی امریکی ضروریات کے بارے میں پاکستان سے تعاون حاصل کرنے کے لئے بھی امریکہ مصروف کارہے‘‘۔ امریکی وزیر دفاع اور سی آئی اے کے سربراہ کے ان دو بیانات میں بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا بلکہ کنفیوژن پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف پاکستان امریکی نوٹس پر ہے اور دوسرا اسی الزام شدہ پاکستان سے امریکی فوجی سپلائز کو فضائی اور زمینی راستہ فراہم کرنے کے لئے بھی رابطے جاری ہیں۔ گویا پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے اور پھر اسی سے افغانستان میں سامان جنگ لے جانے کے لئے مراعات بھی مانگی جارہی ہیں؟۔ ادھر پاکستان کے سرکاری موقف پر نظر ڈالیں تو وہ جرات مندانہ الفاظ پر مبنی بیانات تو جاری کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس حقیقت کی تصدیق بھی کررہے ہیں کہ امریکی اور نیٹوکی فوجی سپلائز لے جانے کے لئے پاکستان نے اپنی مغربی فضائی حدود کو سب کے لئے بند کرکے صرف امریکہ کے استعمال کے لئے مخصوص کر رکھا ہے بلکہ زمینی راستوں کے استعمال کی بھی تصدیق کی ہے۔حقائق بھی یہی واضح کررہے ہیں کہ سلالہ کی پاکستانی فوجی چیک پوسٹ پر امریکی حملے اور تباہی کے واقعہ اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ٹارگٹ کرنے کے امریکی آپریشن سے پیدا ہونے والی پاک۔ امریکہ تلخی و کشیدگی کے دوران بھی پاکستان کی فضائی حدود امریکی سپلائز افغانستان لے جانے کے لئے کھلی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کا یہ عوامی بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ پاکستان کے لئے ’’امریکہ کی سیکورٹی امداد کی معطلی کے بعد امریکا سے اتحاد کو ختم سمجھتے ہیں‘‘۔ اگر یہ موقف درست ہے تو پھر امریکہ کی فوجی سپلائز کیلئے پاکستان کے فضائی اور زمینی راستوں کا استعمال کیوں، کیسے اور کس معاہدہ کے تحت جاری ہے؟ اور یہ تمام کنفیوژن کیوں ہے؟ امریکی سی آئی اے کے سربراہ کا پاکستان کے بارے میں بیان یوں بھی اہم اور قبل از وقت ہے کہ عموماً سی آئی اے کے سربراہان کسی بحران کے ختم ہوجانے کے بعد سی آئی اے کے رول کے بارے میں محتاط انداز میں لب کشائی کرتے ہیں پاکستان میں داخلی بحران چل رہا ہے جس کے بارے میں بعض حلقوں میں اسے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے یعنی نظام مصطفٰے لانے کے دعویدار قومی اتحاد کی اس تحریک کے مماثل قرار دیا جارہا ہے جس میں ملک میں انتخابات میں دھاندلی کے عنوان سے بھٹو مخالف تحریک شروع ہوئی اس کے پس پردہ امریکی ڈالر کی فنڈنگ تھی جس کا اعتراف خود سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات میں کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان زبردست داخلی کنفیوژن کا شکارہے۔ بیرونی خطرات میں افغانستان، بھارت، امریکہ کےاشتراک سے پیدا خطرات کا سامنا ہے جوکہ انتہائی غیرمعمولی صورت حال ہے مگر پاکستانی قیادت کو اس کی کوئی فکر نہیں سول حکومت کے بعض نمائندے اس بیرونی خطرے کا جواب سوچنے کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ سول حکومت اور فوج ’’ایک پیج پر نہیں‘‘۔ مشرق وسطٰی کے ممالک عراق، شام، لیبیا کی تباہی سے بھی کچھ ہم نے نہیں سیکھا۔ اپنے ایٹمی اثاثے بچانے کی حکمت عملی پرسوچنے کی بجائے ایک زعم میں مبتلا ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بس! اپنی ہی ماضی کی کسی تباہی یا غلطی کا حوالہ ہوتو اسے ماضی کی بات کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے اگر دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ذکر ہوتو اسے کمیونزم کی شکست کہہ کر خود کو دنیا کی ایک منفرد اور محفوظ قوم قرار دے کر استثنیٰ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ لہٰذا بحرانی کیفیات کا سامنا کرتے وقت ارباب اختیار و اقتدارکے فیصلوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں کنفیوژن اور تضاد کے باعث پاکستانی عوام بھی اسی کنفیوژن اور لاعملی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کو تو آج تک کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آخر امریکہ کو 2001ء میں امریکی جنرل کولن پاول کی آٹھ منٹ کی فون کال کے جواب میں تابعدار اتحادی بننے کا پاکستانی جواب دینے کے بعد کن سمجھوتوں یا معاہدوں کے تحت پاکستان کی سرزمین، فضائی حدود اور ہر طرح کی آزادی نقل و حرکت کی آزادی دی گئی۔ آخر وہ کونسے معاہدے یا سمجھوتے تھے اور کس نے سائن کئے تھے جن کی رو سے ہمیں اپنی سویلین اور فوجی پروازوں کی روانگی اور لینڈنگ کی اطلاع بھی امریکیوں کو دینا ہوتی تھی؟۔ آخر امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ سے دہشت گردی کے خلاف اسلحہ اور دیگر ضروریات کے استعمال کے لئے خرچ کردہ رقم کو امریکہ سے ’’ریفنڈ‘‘ حاصل کرنے کے ضوابط و قواعد کیا تھے۔ کیا آج پاکستانی عوام کو یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی پاکستانی حکومت نے جن دہشت گردوں اور پاکستانیوں کو امریکیوں کے حوالے کیا تھا اس کے عوض مقررہ انعام کی رقم اور دیگر نوازشات و مراعات جو حاصل کی گئیں وہ کتنی اور کس نے حاصل کیں اور کب اور کیسے قومی خزانے میں جمع کرائی گئیں؟
2003ء میں جب صدر پرویز مشرف امریکہ کے سرکاری دورہ پر آئے اور صدر بش (جونیئر) سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات اور آئندہ پانچ سال کے دوران 3؍ارب ڈالرز کی امریکی امداد کے پیکیج کا اعلان ہوا تو صدر مشرف اور ان کے معاونین بڑے خوش تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ 3؍ارب ڈالرز گن کر وصول کرکے اپنے ساتھ ہی پاکستان لے کر جارہے ہیں۔ افغان جنگ عروج پر تھی۔ میں بھی بطور صحافی کیمپ ڈیوڈ میں موجود تھا جب میں نے ان 3؍ارب ڈالرز کی امداد کی منظوری کے امریکی نظام اور مراحل کا ذکر بعض صدارتی مشیران و معاونین سے کیا اور بتایا کہ منظوری میں ممکنہ مشکلات اور مراحل کیا ہوں گے اور کتنا وقت اور شرائط لگائی جائیں گی تو ’’منفی سوچ‘‘ اور ’’رنگ میں بھنگ‘‘ کے طعنے بھی سننے کو ملے۔ واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانہ میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے اعلان کیا کہ ’’انہوں نے پاکستان کا نام اتنابلند کردیا ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں صدربش سے بات کرلیتے ہیں۔ جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے بات کرنے کی خواہش کرتے ہیں ان سے بات کرلیتے ہیں‘‘۔ وہاں موجود ہم صحافیوں نے تعجب اور حیرانی سے جنرل مشرف کے اس بیان پر تبصرے بھی کئے۔ حالانکہ اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں آنے والے چھوٹے بڑے ملکوں کے حکمراں دن رات مذاکرات کرتے ہاتھ ملاتے نظر آتے ہیں۔ افغان جنگ میں فرنٹ لائن امریکی اتحادی ملک ہونے کے باعث پاکستان کا ذکر اور اہمیت نمایاں تھی اور امریکہ کو اس جنگ میں پاکستان کے تعاون اور مدد کی بڑی ضرورت تھی۔ ورنہ تو یہی ری پبلکن صدر جارج بش (جونیئر) کو اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کا نام تو یاد تھا لیکن پاکستان کے حکمران (جنرل مشرف) کا نام بھی انہیں معلوم تک نہ تھا۔ جارج بش آخر تک کنفیوژڈ رہے اور جنرل مشرف کا نام نہ بتا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے توہین آمیز ٹوئٹ اور یکطرفہ مطالبات کی جڑیں جنرل مشرف کے ان مبہم، کنفیوژن کے حامل فیصلوں سے جڑی ہوئی ہیں جو انہوں نے پاکستان کے آمر کے طور پر پاکستانی عوام کے نام پر کئے۔ آج ان کے طے کردہ سمجھوتوں، اور امریکہ سے انتظامات کی دستاویزات، معاہدے اور سمجھوتوں کی شرائط سے پاکستان کےعوام لاعلم ہیں۔ کیا آج کے فیصلہ ساز پاکستانی حکمراں پرویز مشرف کو بلاکر پاک۔ امریکہ تعلقات میں موجود ’’کنفیوژن‘‘ کو دور کرنے کے لئے تمام حقائق معلوم کریں گے؟ہمارے موجودہ ترجمانوں نے صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ اور دیگر امریکی بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عوامی جذبات و خیالات کا لحاظ رکھا ہے لیکن پاک۔ امریکہ تعلقات میں ’’حلیف‘‘ کو ’’حریف‘‘ میں تبدیل کرنے کے معاملہ کو احتیاط اور ہوشمندی سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ترجمانوں نے سخت ردعمل کا اظہار تو کیا ہے لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوئی سمت اور تجویز بیان نہیں کی ہے۔ ہمیں اس بارے میں کنفیوژن سے نکل کر اس کشیدگی کو باوقار انداز میں حل کرنے کی سمت اور مراحل بھی بتانے کی شدید ضرورت ہے۔

تازہ ترین