• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی خواتین بھی سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں اور جس الزام میںقید ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔جی ہاں اب ضمیر فروشوں نے سعودی عرب جیسے ملک کے مقدس شہروں میں پاکستانی خواتین کو جسم فروشی کے لئے بھجوانا شروع کردیا ہے ، اور کئی درجن خواتین کو سعودی حکام نے مکہ مکرمہ سے جسم فروشی کے الزامات کے تحت گرفتار کیاہے ،مکہ مکرمہ جہاں انسان اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے آتے ہیں ،جہاں ایک نیکی بھی لاکھوں نیکیوں کے برابر ہوتی ہے اور جہاں ایک چھوٹا سے گناہ بھی لاکھوں نیکیوں کو کھا جاتا ہے اس شہر میں ان خواتین کو لانے والے کتنے ہی بدبخت ہونگے جو نہ صرف اپنی آخرت خراب کررہے ہیں بلکہ اپنے ملک کی بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں بھی ایک ہزار کے لگ بھگ افراد سعودی جیلوں میں قید ہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ کراچی ہو یا لاہور یا پھر اسلام آباد کے ائیرپورٹس کم سے کم نو مختلف قانون نافذکرنے والی ایجنسیوں کے حکام ہر آنے جانے والے کی اس قدر چیکنگ کرتے ہیں کہ شریف آدمی بھی اپنے آپ کو اسمگلر محسوس کرتا ہے لیکن پھر سعودی عرب پہنچتے ہی پہلی اسکینگ میں چرس ، افیون یا پھر ہیروئن جیسی منشیات برامد کر لی جاتی ہیں اور پاکستان کے نام پر ایک دھبہ لگتا ہے ۔ جد ہ میں پاکستانی قونصل جنرل شہریار اکبر کے مطابق ہمیں پاکستان میں کسٹم اسکریننگ کا نظام بہتر کرنا ہوگا اور ایماندار لوگ بٹھانے ہونگے تاکہ غلط لوگوں کو اپنے ملک میں ہی روک لیا جائے اور پاکستان بدنامی سے بچ سکے ، دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل میں حج اور عمرے کی ایسی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی ایک دفعہ حج یا عمرے کی سعادت حاصل کرلیں تو سودا مہنگا نہیں ہے جبکہ پاکستان کے گائوں دیہات کے لوگوں کے لئے جن کے پاس پاکستان میں کھانے پینے کو کچھ نہ ہو ان کو اگر کوئی عمرہ یا حج کرانے کی پیشکش کرے تواسے وہ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے سعادت سمجھتے ہیں اور اسی دین سے محبت کا یہ ایجنٹ اور اسمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں ، ان غریب افراد کو عمرہ ویزہ اور ٹکٹ دلانے کے بعد ان کے سامان میں وافر مقدار میں منشیات چھپا کررکھ دیتے ہیں اور ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص آپ سے یہ سامان جدہ یا مکہ میں آکر لے جائے گا ، پھر یہ گروہ ان سادہ لوح افراد کو ائیرپورٹ پر ملی بھگت سے باآسانی جہاز میں سوار بھی کرادیتے ہیں تاہم جیسے ہی یہ معصوم اور مظلو م لوگ سعودی عرب پہنچتے ہیں وہاں پہلی ہی اسکیننگ میں ان کو پکڑ لیا جاتا ہے منشیات بھی برآمد کر لی جاتی ہے اور پھر ایک طویل عرصہ جیل کی سلاخیں ان کا مقدر بنتی ہیں ، باوجود اس کہ پاکستانی قونصلیٹ اور سفارتخانے کی کارکردگی میں بہتری آتی جارہی ہے جیلوں میں موجود پاکستانی شدید مسائل کا شکار رہتے ہیں ، کیونکہ ان پاکستانیوں کی اکثریت کوئی پیشہ ور مجرم نہیں ہوتی بلکہ کئی ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر سعودی عرب آتےہیں اور یہاں آکر گرفتار ہوجاتے ہیں اور پھر مہینوں عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرکے آخر میں خطرناک سزائیں ان کا مقدر ہوتی ہیں ، پھر یہاں ایک اور اہم مسئلہ مزدور طبقے کا استحصال ہے ، پاکستان سے ان پڑھ افراد کو بطور مزدور سعودی عرب لایا جاتا ہے ایسے افراد عربی یا انگریزی تو کیا اردو بولنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں ان لوگوں کے پاسپورٹ کفیل کے پاس گروی رکھوادیئے جاتے ہیں اور ان سےانتہائی کم اجرت پر سخت مزدوری لی جاتی ہے اور جب مزدور احتجاج کرتے ہیں تو کفیل کی شکایت پر جیلیں ان کا مقدر ہوتی ہیں ، سفارتخانہ پاکستان حتی المقدور اپنی کوشش کرتا ہے کہ مذکورہ پاکستانیوں کوقانونی سہولت فراہم کرے لیکن سعودی شہریوں کی شکایات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ، سعودی عرب میں ایک اندازے کے مطابق پچیس لاکھ پاکستانی قانونی طور پر جبکہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ غیر قانونی مقیم ہیں ۔ یہاں سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ ان پاکستانیوں کی جانب سے ترسیل کی جانے والی رقم کی صورت میں حاصل ہوتا ہے لیکن حکومت پاکستان کو اپنی تیس لاکھ کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لئے زیادہ متحرک ہونا پڑے گا جو ہمارے ان پاکستانیوں کا حق بھی ہے ، اچھی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں مقیم صاحب ثروت ایسے افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو پریشان حال پاکستانیوں کی مدد کے لئے ہر سطح پر قانونی اور مالی مدد فراہم کرنے پر تیار رہتے ہیں ،سعودی عرب کے سفر کے دوران ہی جاپان کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت ملک یونس کی فون کال موصول ہوئی وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنے آبائی گائوں سیالکوٹ کے نواحی علاقے میں واقع اپنے گائوں بھاگوال میں غریب و نادار بچیوں کی شادی کے لئے جہیز کی تقسیم کی بہت بڑی تقریب منعقد کرنے جارہے ہیں جس میں کئی سو بچیوں کے والدین کو جہیز کا سامان فراہم کیا جائے گا ، ملک یونس صاحب ہر سال یہ تقریب منعقد کرتے ہیں، کبھی بھی ان کی نیت میں دکھاوا نہیں ہوتا ۔تاہم اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تقریب کو اس نیت کے ساتھ مشتہر کیا جائے کہ اور بھی صاحب ثروت افراد کو اس بات کی تلقین ہو کہ وہ بھی اپنے اطراف میں رہنے والے غریب و مسکین افراد کی مدد کریں ۔میں موسم کی خرابی کے باعث اس نیک کام میں شرکت نہ کرسکا اور بہت سے دوستوں سے ملاقات سے بھی محروم رہا ۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ایک اور اہم مسئلہ پاکستان میں ان کی جائیدادوں پر قبضہ ہے ، ہمارے بھائی زندگی بھر پیسہ بھیج کر پاکستان میں اپنے بڑھاپے کے لئے جائیدادیں بناتے ہیں تاکہ بیرون ملک سے واپسی کے بعد اپنا بڑھاپا اپنے گھر میں گزاریں تاہم پاکستان میں ان کی جائیدادوں پر قبضوں کی بے تحاشا شکایات موجود ہیں جس کے لئے وفاقی اور پنجاب کی سطح پر کافی کام کیا گیا ہے لیکن سندھ میں اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضوں کی شکایات کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ خاص طور پر کراچی میں جائیدادوں پر قبضے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں لہذا حکومت کو چاہیے کہ اوورسیز پاکستان فائونڈیشن کی طرز کا سندھ میں بھی دفتر قائم کیا جائے اور اسے بااختیار بنایا جائے تاکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل بھی فوری طور پر حل کئے جاسکیں۔

تازہ ترین