• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ترکی واحد ملک ہے جو پاکستان کی دوستی کے معیار پر پورا اترتا ہے اور جس نے ہمیشہ ہی پاکستان کا ہر مشکل میں بھرپور ساتھ دیاہے اور خاص طور پر جب سے ایردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی برسراقتدار آئی ہے اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید مضبوط اور توانا بنا کر دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے بہت قریب لاکھڑا کیا ہے۔ ایردوان اور ان کی پارٹی کا ترکی میں برسراقتدار رہنا پاکستان کے لئے بڑی خوش قسمتی کا باعث ہے کیونکہ ترک صدر پاکستان کے ساتھ اپنی محبت اور چاہت کا اظہار صرف بیان بازی تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ ہمیشہ عملی طور پر اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایردوان ہی ہیں جنہوں نے 2005ء میں پاکستان اور کشمیر میں آنے والے شدید زلزلے جس نے کشمیر کے کئی ایک علاقوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا تھا، بھارت کے تمام تر انتباہ کے باوجود آزاد کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا اور پاکستان میں آنے والے اس ہولناک زلزلے کی تباہ کاریوں میں پاکستان اور کشمیری عوام کی مدد کے لئے خود امدادی مہم شروع کی تھی اور امدادی رقم جمع کرتے ہوئے اس رقم کو خود کشمیری عوام تک پہنچایا تھا اور اس سے قبل ان کی اہلیہ امینے ایردوان نے خواتین کی جانب سے جمع کردہ امدادی رقوم جس میں انہوں نے اپنا مشہور نیکلس بھی نیلامی میں فروخت کیا تھا، یہ رقم لے کر خود پاکستان پہنچی تھیں۔ ترک عوام نے زلزلےسے متاثرہ افراد کے لیے چند ہی دنوں میں اتنی بڑی مقدار میں رقم جمع کی تھی جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس کے بعد پاکستان میں2010ء میں آنے والے شدید سیلاب نے ترکوں کو ایک بار پھر شدید غم و کرب میں مبتلا کردیا اور اس دور میں بھی ایردوان اور ان کی اہلیہ امینے ایردوان نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے جو مہم شروع کی تھی اور امداد فراہم کی تھی اس سے پاکستانی عوام بڑے متاثر ہوئے تھے۔
مسئلہ کشمیر پر صدر ایردوان اور ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (آق) پارٹی نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے وہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے لئے باعثِ فخر ہے جس سے صدر ایردوان کے پاکستان کا سچا دوست ہونے کی واضح عکاسی ہوتی ہے کیونکہ کشمیر کے بارے میں ترکی ہی واحد ملک ہے جو کسی قسم کا دبائو قبول کیے بغیر ہمیشہ ہی پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرتا چلا آرہا ہے۔ صدر ایردوان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا دوست ترکی کا دوست اور پاکستان کا دشمن ترکی کا دشمن ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں پاکستانی محب وطن باشندوں کو دی جانےوالی پھانسی کی سزاؤں کے خلاف سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اپنے سفیر کو بھی وطن واپس بلوالیا تھا اور بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی سطح پر سرد مہری کا رویہ اختیار کرلیا تھا۔ ترکی کے صدر ایردوان کے پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بڑے قریبی مراسم ہیں۔ جمعیت ِ علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ذاتی طور پر بڑے قریبی مراسم ہیں۔ مسلم لیگ نون کے برسراقتدار آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان یہ تعلقات عملی تعاون میں ڈھل چکے ہیں۔ پنجاب میں میٹرو سسٹم کے اجرا کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں ترکی سے جو تعاون حاصل ہو رہا ہے اس میں صدر ایردوان کی ذاتی کاوشوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صدر ایردوان کے ذاتی مراسم کی وجہ سے کئی ایک شعبوں میں قریبی تعاون جاری ہے جو اس سے پہلے خام خیال ہی تھا اور یہ تعلقات صرف کاغذی کارروائی تک ہی محدود تھے۔ ترک صدر ہی کے احکامات کی وجہ سے کشمیر اور پاکستان کے طلبا کیلئے ترکی کی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں حکومتِ ترکی نے اسکالر شپ پر موجود طلبا کو پاکستان واپس جانے اور وہاں پر ان کو جاب کے مواقع فراہم کرنے کی بھی ذمہ داری لی ہے۔ اس لئے گزشتہ چند ایک سالوں سے پاکستان سے ترکی تعلیم کے لئے آنے والے طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ امسال14 اگست کو پاکستان کے صدر اور عوام کو ٹویٹر کے ذریعے پیغام دیتے ہوئےصدر ایردوان نے لکھا کہ ’’ ترکی اور پاکستان کی دوستی قیامت تک قائم رہے گی۔‘‘ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کی 70ویں یوم آزادی پر رجب طیب ایردوان نے پاکستانی قوم کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھاکہ ’’دوست اور برادر ملک پاکستان اور پاکستان کے تمام عوام کو 14 اگست یومِ آزادی کی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پاکستان اور ترکی دوستی کے لازوال رشتے میں بندھے ہیں جنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔‘‘ صدر ایردوان ہمیشہ ہی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور کسی بھی ملک کی جانب سے چاہے بھارت، افغانستان یا امریکہ ہی کیوں نہ اپنی دوستی کو نبھاتے ہوئے ان ممالک کے رہنماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئےاس طریقے سے متنبہ کرتے ہیں جیسے وہ پاکستان ہی کے قومی رہنما ہوں اور یہ بیان ان کے ملک کے بارے میں دیا گیا ہو۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ ٹویٹ پربیان جاری کرتے ہوئے اپنی دوستی کا حق نبھا دیا۔ انہوں نے صدر ممنون حسین کو ٹیلی فون کرتے ہوئے امریکی دھمکیوں کے خلاف ترکی کے پاکستان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی شاندار قربانیوں کے باوجود امریکی صدر کا طرزعمل ناپسندیدہ ہے اور ترکی ہر قسم کے حالات میں پاکستان کے ساتھ ہے، صدر ٹرمپ کا ٹویٹ ناپسندیدہ اور پاکستان کی قربانیاں باوقار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں تاریخی اور شاندار ہیں، پاکستان اور ترکی برادر ملک ہیں اور ہر طرح کی صورت حال میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس پر صدرِ پاکستان ممنون حسین نے ترک صدر کے اظہار یکجہتی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ترک بھائیوں کے محبت بھرے پیغام سے فخر کا احساس ہوا۔ علاوہ ازیں صدر ایردوان نے اپنے دورہ فرانس سے قبل استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر مغربی ممالک کو خبردار کرتے ہوئےکہا کہ مغربی ممالک ہی عالمِ اسلام میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نےصدر ٹرمپ کی جانب سےپاکستان کے بارے میں ناپسندیدہ اور ایران کے مظاہروں کے بارے میں ترکی کے ردِ عمل کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، اسرائیل اور متعددمغربی ممالک ایران اور پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور وہ کئی سالوں سے اس خطے میں اپنی ان کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شام، عراق، لیبیا، تیونس، سوڈان اور چاڈ میں ایسا ہی کیا ہے اور اب انہوں نے ایک بار پھر اپنی توجہ پاکستان اور ایران کی جانب مبذول کرلی ہے۔ مغربی ممالک صرف اسلامی ممالک ہی کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ یہ تمام اسلامی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر انہوں نے اسلامی ممالک کو تنہا کرنے کی کوشش کی تو وہ خود ہی تنہا رہ جائیں گے۔

تازہ ترین