• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے معرض وجود میں آنےکے وقت سے قائم شدہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد2002میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں انقلاب لانے کی غرض سے حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا جس کے ذمہ ملک میں اعلیٰ تعلیم عام ہونا، یونیورسٹیوں کی تعداد میں ملکی آبادی کے لحاظ سے خاطر خواہ اضافہ، عالمی معیار کی ہائر ایجوکیشن پالیسی، کوالٹی ایشورنس، مارکیٹنگ سے مربوط پیشہ ورانہ اداروں کا قیام اور پہلے سے قائم اداروں کا معیار بلند کرنا شامل تھا۔ ان15برسوں میں ملک میں سرکاری اور نجی سطح پر بڑی تعداد میں نئی یونیورسٹیاں اور ادارے بھی قائم ہوئے۔ پی ایچ ڈی کی حامل فیکلٹی کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ بڑی تعداد میں یونیورسٹی اساتذہ ایچ ای سی کے توسط سے آج بھی بیرون ملک پی ایچ ڈی کر رہے ہیں قیام پاکستان کے وقت صرف پنجاب یونیورسٹی کام کر رہی تھی آج 103جامعات سرکاری اور 80پرائیویٹ شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ سالانہ 45ہزار گریجویٹس یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اور خصوصاً ملک بھر میں پیشہ ورانہ تعلیم عام ہوئی ہے لیکن اس سب کے باوجود یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کا اندازہ اس تازہ رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں2017میں پاکستان کی چھ یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین 600جامعات میں271ویں، 340ویں، 431ویں،485ویں، 511ویں اور 553ویں پوزیشن پر آسکی ہیں۔یہ صورت حال ہمیںسوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو وطن عزیز کے اس عالمی درجہ بندی میں آگے آنے میں مانع ہیں اور پاکستان پہلی 100تو دور کی بات 200جامعات میں بھی اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت ملک کے پالیسی ساز اداروں، ارباب اختیار اور ماہرین تعلیم کو اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ یاد رہے کہ دنیا میں پاکستانی ڈگری کی قدر کا اندازہ ورلڈ رینکنگ میں نمایاں جگہ بنانے سے مشروط ہے۔

تازہ ترین