• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لالوکھیت یا لیاقت آباد کبھی کراچی میں عوامی سیاست کی نبض ہوا کرتا تھا۔ جس طرح آج کراچی میں زندگی بس کے پہیے کے ساتھ بندھی ہے اسی طرح ماضی قریب سے تھوڑا پیچھے تک کراچی کے سیاسی و سماجی دل کی دھڑکن لالوکھیت ہوا کرتا تھا۔ لالوکھیت کی وہی اہمیت تھی جو کبھی حیدرآباد میں پریٹ آباد کی تھی۔ پھر یہ کراچی اور اسکا لالوکھیت ہر آمریت کے خلاف جمہوری تحریکوں کا ساتھ دیتا تھا۔ فاطمہ جناح کے انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں اس وقت کے آمر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب کی قیادت میں نکلنے والے جلوس میں غنڈوں کے لشکر کی طرف سے چلنے والی گولی نے ملک میں لسانی خون خرابے اور پھر جلائو گھیرائو کی سیاست کی بنیاد رکھ دی تھی۔ لالوکھیت ایوبی آمریت کا ایک گڑھا یا کراچی واٹر لو ثابت ہوا تھا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی لالو کھیت کے جیالے عوام کی سماجی نفسیات اور سیاسی جذباتیت سے خوب کھلواڑ کیا۔ فرقہ واریت نے بھی خوب خون اچھالا۔ میں لالو کھیت یا لیاقت آباد کو کراچی میں اردو بولنے والے عوام کا لیاری کہوں گا۔
اردو بولنے والوں کے اس لیاری میں بھٹو بھی ناکام ہو کر لوٹا تھا۔ کہتے ہیں لالوکھیت والوں نے بھٹو کو جوتے دکھائے تھے تب اس نے کہا تھا ’’ہاں مجھے پتہ ہے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔‘‘ لیاقت آباد سپر مارکیٹ اور ٹیکنیکل کالج جیسے مرکز اور ادارے دینے کے باوجود بھٹو لیاقت آباد یا لالو کھیت کے لوگوں کے دل نہیں جیت سکا۔
لیکن جب کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا کی غنڈہ گردیاں بڑھیں اور فرقہ وارانہ کشیدگیاں تو ایسے پس منظر میں بانی متحدہ اور اسکے تب کے ساتھیوں کی ایم کیو ایم نے کراچی کی کئی اردو بولنے والی آبادیوں سمیت لالو کھیت کے عوام کے دلوں میں راستے بنائے۔ انیس سو پچاسی کے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو انہی کے ایسے مراکز میں شکست فاش ہوئی۔ لالو کھیت ہی کی گلیوں میں بچے تنگ گلیوں میں ’’جنگ آزادی‘‘ کی بات کرتے تھے۔ کراچی سینٹرل کے اسی لیاقت آباد کو محققہ نکولا خان نے تشدد کے حوالے سے ’’تاریخی تھیٹر‘‘ کہا تھا۔انہی دنوں میں نے اسی لیاقت آباد کے دن رات کو الکرم کے فلیٹوں میں رہنے والے میرے ایک دوست ’’ناصر‘‘ (نام فرضی) کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ الکرم کے ہی مرکزی دفتر پر جب انیس سو اکانوے میں چھاپے پڑے تھے تب اسی علاقے کے لوگوں نے بھاری بوٹوں کی تھا پ میں کئی کو بھاری ٹرکوں سے اترتے دیکھا تھا۔ لیاقت آباد کے اکثر لوگ ایسے لوگوں کو ’’میر جعفر‘‘ ’’میر صادق‘‘ کے نام سے یاد رکھتے تھے۔۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے لوگ اگر میں کوئی فتویٰ نہیں دے رہا ہوں اپنے خوف کے ہاتھوں شہری فسطائیت کے قیدی بنے رہے تھے۔ ڈاک خانہ، حسن کالونی۔ الکرم، پیلی بھیت تین ہٹی کراچی کے کئی محنت کش اور نچلے متوسط طبقوں کے باسی۔
نوے کی دہائی سے اکیسویں صدی کی ڈیڑھ دہائی تک محققین اور بشریات کے ماہرین کیلئے لیاقت آباد شاید انسانوں کا چڑیا گھر تھا۔گویا یہاں انسان نہیں درندےتھے۔ ایسا نہیں تھا۔ سب تو نہیں لیکن کئی نوجوان اور ٹین ایجر بلوائیوں، ٹارگٹ کلر یا شہری گوریلا جنگ طرز کے لڑاکا کاروں میں بدلے گئے۔ ’’پاپولر سیاست، پاگل پن کے اثر اور تشدد میں خط تقسیم بہت ہی باریک ہوتی ہے‘‘ آج کے سیانوں نے کہا ہم نے سنا ہے۔
بارہ مئی دو ہزار سات کو کو کراچی میں جو خون بہایا گیا تھا جب اسلام آباد میں اسی پارٹی ایم کیو ایم کی طاقت کو فوجی آمر نے مکا لہراتے ہوئے ’’عوامی طاقت کا مظاہرہ‘‘ کہا تھا۔
اب پھر وہ زہر قاتل نئی بوتلوں میں بکنے آیا۔ یعنی کہ اس اتوار کومیں نے اور آپ نے دیکھا کہ براہ راست وڈیو خطاب پر پرویز مشرف لالوکھیت کےغیور عوام سے مخاطب تھا۔ اور اور ایک نعرہ عجیب ایسے جلسے میں تحریر تھا:’’مہاجروں کی شان پرویز مشرف بھائی جان۔ منجانب متحدہ‘‘۔ یعنی کہ پہنچی وہیں پہ خاک۔ لیکن کراچی سمیت سندھ یا ملک کے لوگ اس ’’بھائی جان‘‘ کی ’’بھائی لوگی‘‘ سے پہلے ہی ڈسے ہوئے ہیں۔ بس بھئی بس آگے بات نہیں چیف صاب۔
سندھ کے بڑے شہروں میں ’’بھائی لوگ‘‘ اور سندھ کے چھوٹے اور دیہی یا زرعی سماج میں ’’بھوتار‘‘ یا ’’پیر۔وڈیرہ میر‘‘ اور اسکے پنٹر ایک عفریت دو منہ والی بلا۔ یہ دو منہ والی بلا ایک منہ وڈیرانہ اور دوسرا عوامی آڑ میں۔ ہرپانچ کلو میٹر پر ایک عذاب ایک آشوب کا در کھلا ہوا۔ ایسے آشوب کا مظاہرہ گزشتہ دنوں اس دماغی امراض کے ماہر نوجوان ماہر سرجن ڈاکٹر ذوالفقار منگی اور اسکے نوجوان بھائی اور اسکی بوڑھی ماں پر تشدد سے ہوا۔ وہ نوجوان نیورولجسٹ ڈاکٹر ذوالفقار جو برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے لوگوںکی ، دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے گمبٹ آیا تھا۔اسپتال میں وسان قبیلے کے کسی مریض کو پہلے یا بعد میں دیکھنے پر تکرار میں بااثر قبیلے والوں نےاسے، اس کے بھائی اور اسکی بوڑھی والدہ پر جو بہیمانہ تشدد کیا جس میں ڈاکٹر کے نوجوان بھائی کے سر کنپٹی اور کان پر شدید ضربیں آئیں، ماں اپنے ساتھ ہونیوالی توہین پر روتی رہی ۔ وہ وڈیو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور ڈاکٹر ذوالفقار منگی کے اپنے الفاظ میں ’’کل میری ماںاسپتال آئی مجھ سے دوائیں لینے۔ اسی اثنا میں و سان قبیلے کے لوگ ایک زخمی کو لیکر آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ میڈیکو لیگل کیس ہے۔ لیکن وہ ہنگامہ کرکے گئے اور تھوڑی دیر میں سریے ہاتھوں میں لائے جن سے انہوں نے میرے بھائی کے دماغ کی اس پرت پر ضرب ڈالی جس سے اسکے بھیجے کا تھوڑا سا حصہ باہر کو نکلا دکھائی دے رہا تھا، اسکا کان شدید زخمی ہوا۔ وہ لہو لہان ہوا، میری ماں کو گالیاں دیں، اسے چوٹیں لگیں۔ یہ مجھ سے وسان نہیں لڑے۔ یہ مجھ سے منظور و سان لڑا ہے، ایک جاگیردارانہ سوچ لڑی ہے۔ میرا شمار پاکستان کے پانچ چھ دماغی سرجنوں میں ہوتا ہے، میں سٹی سائوتھ میں پروفیسر شپ چھوڑ کر، پچیس لاکھ روپےتنخواہ چھوڑ کر دس لاکھ کا آپریشن دس ہزار روپوں میں کرنے کیلئے اپنے علاقے کےاسپتال میں آیا تھا۔ لیکن میرے بھائی کو گہری چوٹ لگا کر زخمی کئے جانے کے باوجود میری ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ ایف آئی آر نہ کاٹنے کیلئے ٹیلیفون آتے رہے کہ با اثر لوگ ملوث تھے۔‘‘ یہ صرف خیرپور میرس کی کہانی نہیں سندھ میں ہر پانچویں کوس پر اس طرح کی یا ان سے ملتی ہوئی کئی کہانیاں ہیں۔ منظور وسان وہ بھی دور یاد کرے کہ جب سندھ میں جام صادق علی کا راج تھا اور اسے اسکے ہی ضلع میں کچے کے علاقے کے بدتر تھانے سوراہ میں رکھا ہوا تھا اور اس پر تشدد کی بات کرنیوالا کوئی نہیں تھا۔اب کیا سندھ کے وڈیرے اور وڈیرہ نما مڈل کلاسی حکمرانوں میں جام صادق علی کی روح آئی ہے کہ بھٹو کی اس پر جلد لیکن کسی اور کالم میں۔

تازہ ترین