• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں خلافت ِ عثمانیہ کے بوسیدہ نظام کا خاتمہ ہوا تو اس کی راکھ سے نئی چنگاری پھوٹی۔ ماضی کی شبِ آمریت کے اختتام سے جدیدیت کا آفتابِ جمہوریت طلوع ہوا۔ کمال اتا ترک کی قیادت میں ترکوں کی یہ نئی انگڑائی بلاشبہ اپنی قوم کے لئے نئی صبح صادق ثابت ہوئی مگر دیگر مسلم اقوام کے لئے یہ سحر بالعموم صبح کا ذب ہی رہی۔ یعنی بیسویں صدی میں انہیں آزادیاں تو ملیں اور ان کی تعداد چھپن تک پہنچ گئی مگر یہ مسلم اقوام غیروں کی غلامی سے نکلنے کے باوجود اپنوں کی غلامی سے بھی بدتر آمرانہ شکنجے میں جکڑی گئیں۔ یوں بالفعل وہ آزادی کے ثمرات سے محروم رہیں۔ یہ امر بڑی حد تک حوصلہ افزا اور مسلم اقوام کے لئے خوشگوار ہے کہ اکیسویں صدی ان کے لئے نئی تبدیلیاں اور نئی روشنی لے کر وارد ہوئی ہے۔ آج جس طرح مختلف خطوں کی مسلم اقوام میں ڈکٹیٹروں کی رخصتی ہو رہی ہے اسی طرح مذہبی جنونیت کو بھی شعوری دُرّے یا کوڑے لگ رہے ہیں۔
چند برس قبل تک کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سعودی عرب جیسا معاشرہ اتنی تیزی سے جدیدیت کی نئی کامرانیوں کی طرف اس شتابی سے بڑھے گا وہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ہی نہیں ملے گی بلکہ مرد و زن کے مخلوط اداروں کے لئے بھی گنجائش نکلنا شروع ہو جائے گی۔ نہ صرف نئے ماڈرن شہر بسانے کے منصوبے بن رہے ہوں گے بلکہ نچلی سطح پر ہی سہی انتخابی سیاست کے آغاز پر آوازیں اٹھنے لگیں گی۔ سنیما گھر، فن موسیقی اور دیگر تفریحی پروگرام تشکیل پانے لگیں گے۔ صدیوں کی محرومی کے شکار طبقات کی بھی شنوائی ہونے لگے گی۔ ہنوز اگرچہ پرانی بوڑھی قیادت موجود ہے لیکن یہ کسی بھی لمحے نئی و جوان نسل کو منتقل ہوا چاہتی ہے۔
ایران میں رضا شاہ پہلوی کی شخصی آمریت پر بہت سے سوالات اٹھائے جاتے تھے لیکن 1979 کے انقلاب نے ایرانی قوم کو محض یہ تبدیلی دی کہ سیکولر جبر و آمریت کی جگہ مذہبی جبر و آمریت نے لے لی۔ مظلوم ایرانی قوم کے لئے اس کے ثمرات کیا برآمد ہوتے کہ وہ ایک سیکولر آمریت کے گڑھے سے نکال کر مذہبی جنونی آمریت کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے۔ ہمارا گمان تھا کہ خمینی صاحب کا یہ انقلاب لینن کے سوویت انقلاب سے زیادہ لمبی عمر نہیں پائے گا۔ روشن خیال ایرانی عوام حالات مناسب ہوتے دیکھ کر یا موقع پاتے ہی ملّاوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
وطنِ عزیز پاکستان کا عالمی وژن ان ہر دو ممالک سے ملتا جلتا ہے۔ ہماری70سالہ تاریخ میں عسکری آمریت تنہا نہیں چھائی رہی، یہاں ملّا ملٹری الائنس کا بہت رونا رویا جاتا ہے اور اندرون خانہ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ نظریاتی انتشار میں بابا رحمت نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دینا اپنا قانونی فریضہ خیال کیا ہے۔ سابقہ ادوار کی نسبت عصری بدقسمتی ہے کہ صحافت یا میڈیا کا بھاری وزن بھی آمریت کے پلڑے میں پہنچ چکا ہے۔ یوں ہماری سوسائٹی پولرائزیشن کا شکار ہے۔ ایسے فکری خلفشار میں وہ سیاستدان جنہیں عوامی اعتماد کے ذریعے کامیابی کا حصول دکھائی نہیں دیتا وہ بھی اس جبری الائنس کا حصہ بننا اپنی کامیابی کا اولین زینہ خیال کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے چھلانگیں مارنے یا یوٹرن لینے کو بھی وہ غیر جمہوری یا غیرسیاسی خیال نہیں کرتے۔ ایسے دگرگوں حالات میں جینوئن سیاستدانوں یا پاپولر سیاسی قیادت کے لئے ملک کو آئینی و جمہوری اسلوب میں چلانا تو رہا ایک طرف ملک کی دفاعی و خارجی پالیسیوں کو ہاتھ میں لینا بھی مشکل تر ہو جاتا ہے۔
2013کا الیکشن جیت کر ہماری موجودہ حکومت وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں برسرِاقتدار آئی تو نواز شریف نے اپنے سابقہ تلخ تجربات کی روشنی میں یہ چاہا کہ خطے میں امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لئے ازحد ضروری ہے کہ ہندوستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔ اسی سوچ کے تحت نومنتخب بھارتی قیادت کی دعوت پر وہ ہمسایہ ملک تشریف لے گئے لیکن طاقتور طبقے نے ان کی اس جسارت کو ناقابلِ معافی جرم خیال کیا۔ پاپولر جمہوری لیڈر جو اپنی طاقت کا منبع عوام کو خیال کرتا ہو ہماری طاقتور ایجنسیاں بھلا اس کی اجازت کیسے دے سکتی ہیں۔ ہماری سیاست کا جو طالبعلم اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے اُسے دھرنا ون ٹو تھری سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔
سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت میں ایک توازن رکھنا اگرچہ وسیع تر قومی مفاد کا تقاضا تھا لیکن پاکستان کے معروضی حالات و واقعات پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص سعودی عرب سے پاکستان کے قومی مفادات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نواز شریف کو حالات و واقعات کے جھکڑ میں ایسے ٹریپ کیا گیا کہ انہوں نے سعودیوں کو وہ جواب دے دیا جس کی توقع وہ کم از کم ان سے ہرگز نہیں رکھتے تھے۔
ان کے لئے سعودی عرب محض سعودی عرب نہیں تھا اس کے پیچھے عالمی سپرپاور کی ہمدردی و حمایت بھی تھی جس کا نادیدہ دباؤ آپ کی طاقت ہوتا۔ آپ کو اپنا یہ سب گنوانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب بھی جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو اپنی پوزیشن واضح کرو کہ یمن میں ٹروپس کے انکاری ہم نہیں کوئی اور تھے۔ کوئی اور آج اگر دباؤ میں ہے تو اپنی سیاست کو نقصان پہنچانے والی بات کئے بغیر معاملہ کرنے میں حرج نہیں۔ مارچ سے قبل جو چیز آپ کے لئے چیلنج بن سکتی ہے اُسے فیوز کرنے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کا ٹارگٹ دو تہائی اکثریت ہونا چاہئے۔
اسی سے آپ انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے ڈسنے والے تمام سوراخ بند کر سکتے ہیں۔ نہ بھی ہو پھر بھی انتخابی جیت ہی جمہوریت میں بہترین انتقام قرار پاتی ہے۔ اسی سے آمریت و جنونیت کا الائنس توڑا جا سکتا ہے اور وطنِ عزیز پاکستان میں جوہری تبدیلیوں کے اس سفر کا آغاز ہو سکتا ہے جس پر بشمول سعودی عرب اور ایران پورا عالمِ اسلام اس وقت گامزن ہے۔ جبری آمریت اور مذہبی جنونیت کے بالمقابل مسلم ورلڈ کو آج سب سے بڑا یہی چیلنج در پیش ہے۔

تازہ ترین